چین کے وزیر خارجہ نوروز کی چھٹی کے موقع پر تہران پہنچنے سے قبل ریاض میں رک گئے۔
العربیہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے پوچھا گیا کہ انہوں نے مشرق وسطی اور خلیج عرب میں سعودی عرب کو اپنی پہلی منزل کے طور پر کیوں منتخب کیا اور سعودی عرب کے ساتھ چین کے تعلقات کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ ان کا جواب تھا: ’اجتماعی سلامتی اور مشرق وسطیٰ میں سلامتی اور استحکام میں مشترکہ طور پر اضافہ تاکہ فریقین کے جائز خدشات کو دور کیا جا سکے۔ مساوی حیثیت، باہمی افہام و تفہیم اور مطابقت سے بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنا اور خلیج عرب سے جڑے ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر بنانا ضروری ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف مستقل طور پر لڑنا اور اس کے خاتمے کو آگے بڑھانا ضروری ہے۔ ہم مشرق وسطیٰ میں اعتماد کے طریقہ کار کے قیام کی جانچ کے لیے چین میں خلیج عرب کے خطے میں علاقائی سلامتی کے بارے میں کثیر الجہتی مذاکرات کانفرنس کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ ’ہم تیل کی سہولیات اور نقل و حمل کی لائنوں کی حفاظت کو یقینی بنانے جیسے معاملات سے شروع کر سکتے ہیں اور مرحلہ وار مشرق وسطی میں اجتماعی، جامع سلامتی اور پائیدار تعاون کے لیے ایک فریم ورک قائم کریں گے۔‘
اس انٹرویو کے بعد جس میں ایران کی آئی اے ای اے میں ممکنہ واپسی پر امریکی مذاکرات کے آغاز اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں خدشات کے بارے میں سوالات شامل تھے، چینی وزیر خارجہ نے ایران کا سفر کیا تاکہ 25 سالہ بڑے معاہدے کو حتمی شکل دے سکیں۔
27 اپریل کو، جس دن چین اور ایران کے درمیان اس دستاویز پر دستخط ہوئے، وانگ یی نے حسن روحانی کو بتایا کہ چین چاہتا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں واپس آئے اور انہوں نے روحانی انتظامیہ کے تجویز کردہ ’ہرمز امن منصوبے‘ کی حمایت کی۔
18 اپریل کو جب فنانشل ٹائمز نے عراق میں ایرانی اور سعودی عہدے داروں کے مابین ملاقات کے بارے میں خبر دی ہے جس پر اب تک سعودی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ ایرانی ردعمل بغداد میں ایرانی سفیر ایرج مسجدی کی جانب سے سامنے آیا جن کا کہنا تھا کہ ان کا ملک، تہران اور بعض علاقائی ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی لانے میں عراق کے ثالثی کردار کا خیرمقدم کرتا ہے۔
دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو فروغ دینے کی بجائے، یہ ملاقاتیں خطے میں طاقت کے دو اہم قطبوں کے مابین سکیورٹی کے معاملات اور اس خطے میں عدم استحکام پر توجہ مرکوز ہو سکتی ہیں، (عراقی وزیر اعظم) مصطفی الکاظمی کے ذریعے نہیں بلکہ چینی حکومت کی امریکہ کے ساتھ منصوبہ بندی کے ذریعے۔ یہ ہو چکا ہے۔
چین کی حکومت کے خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اسے امریکہ سے زیادہ مراعات حاصل ہیں۔ بارجام واپس جانے کے لیے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ لیکن ایک ایسے عبوری معاہدے کو پہنچنے کے لیے جو ایران کے جوہری پروگرام پر زیادہ گہری بات چیت کی راہ ہموار کرسکتا ہے، ایران کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے خطے کے ممالک کی رضامندی اور خلیج عرب میں سلامتی کی صورت حال کی نسبتا بہتری کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے لیے اہم نکات ہیں۔
چین سعودی عرب سے تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور ایران کے حالیہ اقدامات سے خلیج عرب، آبنائے ہرمز اور عمان کے پانیوں میں بحری جہازوں اور حوثی ڈرونز اور میزائلوں کا آرمکو کی تیل کی تنصیبات پر حملوں نے خطرات بڑھا دیئے ہیں۔ ایران بھی عملی طور پر چین کے مفادات کے لیے خطرہ بن گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کے ساتھ چین کا 25 سالہ معاہدہ، جس سے اس ملک کے لیے دور رس اقتصادی اور مالی فوائد ہوسکتے ہیں، چین کے لیے امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی پر سخت مایوسی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ایران نے چین کو ایک بہت ہی اہم اور بنیادی گارنٹی دے کر اس معاہدے پر پہنچنے کے لیے راضی کیا ہو گا۔
سعودی عرب اور جی سی سی ممالک کے ساتھ چین کے تجارتی معاہدوں کی قدر ایران کے ساتھ تجارت کے حجم کے مقابلے کی نہیں ہے۔ لیکن ایران کے سستے تیل، اس کے سمندری اور قدرتی وسائل اور بہت سارے دیگر بےشمار فوائد جو 25 سالہ چین ایران معاہدے میں شامل ہیں، اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ مقابلے میں چین نے مشرق وسطیٰ، خاص طور پر خلیج عرب کی جانب آغاز اس کے معاہدے پر رضامند ہونے میں سب سے اہم عنصر رہا ہے۔
تہران کے دورے سے قبل، چینی وزیر خارجہ ریاض گئے اور اس معاہدے کی تفصیلات سے متعلق سعودی حکام کو آگاہ کیا اور اس پر عمل درآمد کو کشیدگی کو کم کرنے اور تہران کو سعودی عرب کے ساتھ سکیورٹی مذاکرات پر راضی ہونے سے مشروط بنانے کی بات کی۔
اگر یہ تجزیہ درست ہے تو یہ کہنا ضروری ہے کہ امریکہ یا اس کی بجائے صدر جو بائیڈن نے علاقائی تنازعات کا حل چین پر چھوڑ دیا ہے۔
اگر امریکہ کے ساتھ مل کر چین نے ایران کے غیر متوقع طرز عمل پر قابو پانے کی ذمہ داری قبول کی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی حکومت نے نہ صرف پانی اور مٹی فروخت کی بلکہ اپنی بقا کو بھی مشروط طور پر چین پر بیچ دیا ہے۔ یہ چین کی مدد سے ایرانی عوام کا خیال رکھنے کی کوشش ہے۔
دنیا کی سب سے عظیم تہذیب اور تاریخ رکھنے کے لیے مشہور ایران ایرانی صدر کے لیے چینی وزیر خارجہ کا یہ توہین آمیز بیان بھی ناقابل فراموش ہے: ’اس معاہدے پر دستخط کے بعد ان کا ملک ایران کو مزید کورنا ویکسین مہیا کر سکے گا۔‘
چین کے وزیر خارجہ نے العربیہ کو بتایا کہ چین نے خلیجی تعاون کونسل کے تمام ممبروں کے ساتھ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ تعاون کے دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔ چین اور جی سی سی ممبران کے مابین دوطرفہ تجارت 2020 میں 160 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی، جس سے چین جی سی سی کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اور پیٹرو کیمیکل برآمد کا سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا اور اب دونوں ایک تجارتی زون کے قیام پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ چین خلیجی تعاون کونسل کے ساتھ تعلقات میں مزید پیش رفت کے لیے تیار ہے۔