’میری کچھ خواتین دوست پریشان ہیں کہ اب ہم نہیں ملیں گے جبکہ ایک تو کال پر اتنی روئی اور کہہ رہی تھی کہ اتنا عرصہ ایک ساتھ رہ کر اب جدائی برداشت نہیں ہوگی لیکن گھر والے اور میرے دفتر کے مرد ساتھی بہت خوش ہیں کہ اب آزادی کے ساتھ گپ شپ لگا سکیں گے۔‘
یہ کہنا تھا 40 سالہ شیما قریشی کا جو جنس تبدیلی کے بعد عمر قریشی بن گئے ہیں۔
عمر قریشی کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے اور صوابی کی تحصیل رزڑ میں فی میل ایجوکیشن آفیسر ( اے ایس ڈی او) ہیں۔ تاہم جس پوسٹ پر یہ کام کرتے ہیں وہ خواتین کے لیے مختص ہے لہذا اب ان کو کسی میل سیکشن میں بھیج دیا جائے گا۔
فون پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عمر قریشی نے بتایا کہ بچپن سے ان کو احساس ہو رہا تھا کہ ان کی جنس اور باقی عادات خواتین جیسی نہیں بلکہ مردوں کی طرح ہیں تاہم اس وقت خاندان والوں نے مختلف ڈاکٹروں سے مشورہ بھی کیا تھا لیکن ڈاکٹروں نے درست مشورہ نہیں دیا۔
’والد مجھے پشاور اور لاہور کے مختلف ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئے تھے اور ان کو اس حوالے سے آگاہ کیا تھا لیکن لاہور میں ایک ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ یہ مرد بن سکتے ہیں لیکن اگر یہ خاتون ہی رہیں تو بہتر ہے جس کے بعد ہم نے اس مسئلے کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیا۔‘
عمر قریشی سے جب پوچھا گیا کہ اب ان کو کیسے محسوس ہوا کہ جنس کو تبدیل کرنا چاہیے، اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ رواں سال کے ابتدائی مہینوں میں مجھے بہت عجیب محسوس ہو رہا تھا اور میں نے اس مسئلے کا ذکر دفتر میں اپنے ایک ساتھی سے بھی کیا جس کے بعد انہوں نے مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو انہوں نے مجھے جنس تبدیلی کے لیے سرجری کرنے کا مشورہ دیا جس کے لیے تین مہینوں میں چار آپریشن درکار تھے جو مارچ کے مہینے تک مکمل ہوئے جبکہ ایک ابھی رہتا ہے۔
’آپریشن کا مرحلہ بہت کٹھن تھا۔ گھنٹوں تک آپریشن مکمل کرنے میں لگتے ہیں تاہم اللہ کا شکر ہے کہ تینوں آپریشنز کامیاب ہوئے ہیں۔‘
عمر قریشی کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں جو پہلے چار تھیں اور یہ سب سے بڑی بہن تھیں جو اب بڑا بھائی بن گئے ہیں۔ عمر نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک نجی سکول سے حاصل کی اور بیچلرز اور اسلامیات میں ماسٹر کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔
’جنس تبدیلی کے بعد مجھے عجیب نہیں لگا اور نہ اتنا زیادہ فرق محسوس کر رہا ہوں کیونکہ میرے والد نے بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ میں جب بہن تھی تو بڑی بہن تھی اور والد نے گھر کا پورا اختیار مجھے دیا تھا۔ اپنے بھائیوں کو بھی ساتھ میں سپورٹ کرتا تھا۔‘
تاہم ان کے مطابق ایک ججھک یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ اب باہر نکل کر مردوں کے بیچ میں جاؤں گا تو ابتدا میں تھوڑا مسئلہ اور خوف دل میں ہوگا لیکن وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور وہ گھر میں خواتین کا مدرسہ بھی چلاتی تھیں تاہم اب مرد بننے کے بعد سوچوں گا کہ اس مدرسے کا کیا کریں۔
عمر قریشی کہتے ہیں کہ ’مدرسے کے لیے ایک بات میں نے سوچی ہے کہ پردے کے اس پار مائک کے ذریعے درسو تدریس کا سلسلہ جاری رکھوں اور بچیوں کو پڑھا سکوں۔‘
فیمیل ایجویکشن افیسر سے تبادلے کا کیا ہوگا؟
عمر قریشی کے لیے اب سب سے اہم کام اپنی نوکری ہے جہاں وہ تقریباً 12 سال بحیثیت خاتون گزار چکے ہیں۔ چونکہ وہ اب بحیثیت فی میل ایجوکیشن آفیسر تعینات ہیں جو صرف خواتین کے مختص ہے، تو ان کو کسی مردوں کے سیکشن میں جانا پڑے گا۔
اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے پر محکمہ تعلیم سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے ایک درخواست اور جنس تبدیلی کا ڈاکٹر سے تصدیق شدہ سرٹیفیکیٹ طلب کیا ہے۔
’سرٹفیکیٹ اور درخواست تیار کر لی ہے اور جلد ضلعی تعلیمی آفیسر کے پاس جمع کروا دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور مجھے کسی میل سیکشن میں تعینات کیا جائے گا۔‘
اس بارے میں ضلعی تعلیمی سربراہ ارشاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ یہ ایک انوکھا کیس ہمارے محکمے میں سامنے آیا ہے۔
ارشاد خان نے بتایا کہ عمر قریشی دراصل ٹیچنگ شعبے (سبجیکٹ سپیشلسٹ پوسٹ) کی حیثیت سے گریڈ 16 میں بھرتی ہوئے تھے لیکن بعد میں تحصیل میں فیمیل ایجوکیشن کی پوسٹ خالی تھی جو منیجمنٹ کیڈر کی ہے، تو ان کا تبادلہ وہاں پر کیا گیا تاکہ وہاں پر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
’اب جنس تبدیلی کے بعد وہ فیمیل پوسٹ پر نہیں رہ سکتے۔ ہم ان کو دوبارہ ٹیچنگ کیڈر میں بھیجنے کا پلان بنائیں گے اور ان کو کسی ہائی سکول میں تعینات کریں گے۔ میرے خیال میں اس میں کسی قسم کی پیچیدگی کی بات نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ خاتون تھیں، بحیثیت خاتون ٹیسٹ دے کر بھرتی ہوئیں اور اب مرد پوسٹ پر بھرتی کیا جائے گا تو اس سے کوئی قانونی مسئلہ تو سامنے نہیں آئے گا؟ اس کے جواب میں ارشاد خان نے کہا کہ جہاں تک ہم نے اس کیس کو دیکھا ہے تو عمر قریشی اوپن میرٹ پر محکمہ تعلیم میں بحثیت خاتون بھرتی ہوئے تاہم یہ بات درست ہے کہ اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ معاملہ میں اعلیٰ افسران کے نوٹس میں ضرور لاؤں گا کیونکہ عمر قریشی کے کیس میں تو کوئی مسئلہ نہیں اور ان کو کسی مردوں کے سکول میں دوبارہ تعینات کیا جائے گا تاہم مستقبل میں ہمیں اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں خصوصاً اس صورت میں جب کوئی خاتون فیمیل کوٹہ پر بھرتی ہو گئی ہوں اور بعد میں وہ جنس تبدیلی کے بعد مرد بن جائیں۔‘
جنس کی تبدیلی کیسے کی جاتی ہے؟
پاکستان میں جنس تبدیلی کے حوالے سے اب تک باقاعدہ قانون موجود نہیں ہے اور زیادہ تر جنس تبدیلی کے مقدمات عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور عدالت سے اجازت لے کر کوئی بھی شخص جنس تبدیل کر سکتا ہے۔
جنس تبدیلی کے حوالے سے اب بھی چند مقدمات پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں جس میں اب تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
جنس تبدیلی کی اجازت کے لیے دائر پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست گزار خاتون کے وکیل سیف اللہ محیب کاکا خیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے معاشرے اور عدلیہ کو اس قسم کے نازک کیسز کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے کیونکہ زیادہ تر لوگ جو خود کو نارمل محسوس نہیں کرتے، وہ ایک سادہ سرجری کے ذریعے جنس تبدیل کر کے ایک نارمل انسان کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکن اور خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والے قمر نسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنس تبدیلی کے حوالے سے پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے تاہم پلاسٹک سرجن یعنی جنس تبدیلی کے آپریشن کرنے والے ڈاکٹروں نے ایک ضابطہ اخلاق اس حوالے سے بنایا ہے۔
قمر نے بتایا: ’اس ضابطہ اخلاق کے تحت کوئی بھی شخص جنس تبدیلی کے آپریشن سے پہلے ماہر نفسیات سے مشورہ ضرور کریں گے اور اس کے بعد عدالت سے اجازت نامہ لا کر ان کا آپریشن کیا جائے گا۔‘
ماہرین کے مطابق جنس تبدیلی کے مکمل پراسس میں 12 سے 18 مہینے لگتے ہیں اور یہ ایک لمبا طریقہ کار ہوتا ہے۔