جب تک آپ پرانے اخبارات کے بنڈل، فاسٹ فوڈ کے خالی ڈبوں یا اپنے ہی کچرے کے بیگوں کے ساتھ رہ رہے ہوں، آپ اس بات کو محسوس کر ہی نہیں سکتے کہ اس سال کے فلاح و بہبود کے رجحانات میں سے ایک اہم رجحان صفائی ستھرائی کے حوالے سے ہے۔ نہ صرف جسمانی بلکہ اپنے گھر کی بھی صفائی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر صفائی کی اہمیت کے حوالے سے کلینس پو (#cleanspo) نامی مہم چل رہی ہے، خصوصاً جاپان کی ایک مصنفہ میری کونڈو کی انسٹاگرام فیڈ اس طرح کے موضوعات سے بھری پڑی ہے۔
وہ ’ٹائیڈنگ اَپ وِد میری کونڈو‘ کے نام سے نیٹ فلکس پر ایک شو بھی کرتی ہیں، جس میں وہ گھروں کو اپنے مخصوص ’کون میری‘ طریقے سے صاف کرنا بتاتی ہیں جس کے نتیجے میں واشنگٹن ڈی سی میں چیزیں عطیہ کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا کیونکہ لوگوں نے فالتو اشیا کو گھروں سے نکالنا شروع کردیا۔
اسی طرح پیٹربوروہ سے تعلق رکھنے والی تین بچوں کی ماں 40 سالہ لِنسے کرومبی بھی ہیں، جو اُن لوگوں کے لیے متاثر کن آئیڈیاز فراہم کرتی ہیں جن کے ہاں بچے ہوں اور جنہیں پالتو جانور رکھنے کا بھی شوق ہو۔
لنسے کو انسٹاگرام پر ایک لاکھ 40 ہزار افراد فولو کرتے ہیں، ان کے اکاؤنٹ پر رنگوں کی بہار نظر آتی ہے، جن میں گلابی رنگ نمایاں ہے۔ وہ مختلف طریقوں، تصاویر اور جملوں کی مدد سے صفائی کی اہمیت کے حوالے سے اپنا مدعا بیان کرتی نظر آتی ہیں۔
تاہم ان سب میں اہم صوفی ہنچ کِلف عرف مسز ہنچ ہیں، جو برطانیہ کی کاؤنٹی ایسکس میں رہائش پذیر ہیں۔ مسز ہنچ کو انسٹاگرام پر فولو کرنے والے افراد کی تعداد 2.4 ملین سے زائد ہے، جہاں ان کی روزمرہ زندگی کی تصاویر خصوصاً ان کے سرمئی گھر کی تصاویر لوگوں کو بہت بھاتی ہیں۔ ان کے گھر میں ہر چیز سرمئی رنگ کی ہے، سوائے ان کے کوکر سپانیئل نسل کے ہلکے بھورے رنگ کے کتے کے، جس کی تصاویر اکثر انسٹاگرام پر نظر آتی ہیں۔
میرے خیال میں ایک سرمئی رنگ کے گھر کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ اس میں گرد و غبار نظر نہیں آتا۔ مسز ہنچ ایک ’صفائی کی گرو‘ کے طور پر سامنے آئی ہیں، جنہوں نے ایسی ایسی ٹپس دیں، جو بہت سے لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوئیں، جن میں لکڑی کے فرش کو بجلی سے چلنے والے ٹوتھ برش سے صاف کرنا بھی شامل ہے۔
صفائی ستھرائی اور ان کی ذاتی یادداشتوں پر مشتمل ہنچ کلف کی کتاب کی بھی ایک ہفتے کے دوران ایک لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔ لیکن وہ صرف کتابوں کے ذریعے ہی اپنا پیغام نہیں دیتیں، جب بھی وہ صفائی سے متعلق کسی پروڈکٹ کی تصویر لگاتی ہیں تو اسے خریدنے والوں کا رش لگ جاتا ہے۔ خود ان کی پسندیدہ پروڈکٹ ایک کپڑا ہے، جسے ’منکی‘ کہا جاتا ہے۔
تاہم یہ خواتین صرف چیزوں کی خریدوفروخت کے لیے ہی انسٹاگرام کو استعمال نہیں کرتیں، بلکہ صوفی ہنچ کلف اور لِنسے کرومبی اس حوالے سے بھی بات کرتی ہیں کہ کس طرح صفائی ستھرائی کی عادت سے انہیں اپنے ذاتی چیلنجز اور مشکلات سے نمٹنے میں مدد ملی۔
ہنچ کلف نے گھر کی اشیا کو پالش کرکے پریشانیوں اور گھبراہٹ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ لنسے کرومبی نے صفائی کو اُس وقت مہنگی تھراپی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا، جب اپنی شادی کے ختم ہونے کے بعد وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔
سائنسی تحقیق بھی ان خواتین کے تجربات کی روشنی میں ترتیب اور نظم و ضبط میں سکون تلاشنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں سائیکولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ڈاربی سیکسبی کے مطابق وہ خواتین، جن کے گھروں میں سازوسامان کھچا کھچ بھرا ہوا ہوتا ہے، وہ اُن خواتین کے مقابلے میں زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں، جن کے گھر صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ خواتین جو سمجھتی ہیں کہ ان کا گھر صاف نہیں ہے، ان میں کورٹیسول نامی ہارمون کی شرح بھی زیادہ پائی جاتی ہے، جس کا تعلق اسٹریس سے ہے۔
ان نتائج کی مجھے سمجھ آتی ہے۔ ڈھائی برس پہلے جب میرے والد کا اچانک انتقال ہوگیا تو مجھے جاپانی مصنفہ میری کونڈو کی صفائی پر شہرہ آفاق کتاب ’صاف ستھرے رہ کر زندگی بدلنے کا جادو‘ (The Life Changing Magic of Tidying Up) پڑھ کر غیر متوقع سکون ملا۔
یہ بہت مشکل وقت تھا۔ والد کو کھونے کے ساتھ مجھے اپنے کیریئر کی پریشانی بھی تھی۔ زندگی مسلسل گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ میں اپنی توجہ ناول پڑھنے پر مرکوز نہیں کر پا رہی تھی۔ اپنی مدد آپ کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں جو حقیقت میں زندگی کی مشکلات پر قابو پانے کے بارے میں تھیں، انہیں پڑھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایسے حالات میں جاپانی مصنفہ کی صفائی پر کتاب پڑھ کر ایسا سکون ملا جیسے بچوں کے لیے لکھی گئی کوئی کہانی ہو۔
میری کونڈو کی کتاب میں بتایا گیا تھا کہ زندگی کے روزمرہ کے معاملات کو سادہ ترین طریقوں سے کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ انتہائی دکھ کی گھڑی میں بھی میں اپنی جرابیں تہہ اور کپڑے استری کرسکتی تھی۔ ٹی شرٹس کا ڈھیر دیکھنا پرنٹر سے چھپنے کے بعد کسی نئے ناول کے صفحات کا ڈھیر دیکھنے سے مختلف تھا لیکن چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کے ذریعے میں نے مایوسی کے گڑھے سے امید کی سیڑھی بنائی تھی۔
میری کونڈو کی کتاب میں موجود نصیحت کی بدولت ایک خاص فرق پڑا تھا۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ جب آپ صفائی کرنے لگیں تو پھینکنے کے لیے منتخب کیے جانے والے سامان کا ’شکریہ‘ ادا کریں۔ جب موقع آیا کہ فیصلہ کروں کہ اپنے پیارے پاپا کی کون سے چیز سنبھال کر رکھنی ہے اور کون سی نہیں تو میں نے اس خیال کو بڑا متاثر کن اور سود مند پایا۔
میرے والد جب بھی مجھ سے ملنے لندن آتے، اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور لاتے تھے، جیسے جنگ کا شکار علاقوں کے بچوں کی ابتدائی دنوں کی یادیں راشن بکس ہوتی تھیں، اسی طرح پاپا ہر اُس چیز کو پھینکنے کے خلاف تھے، جو ایک دن کام آسکتی ہو۔
پاپا جب گھر کی صفائی کرنا چاہتے تو اس کا سب سے آسان طریقہ یہ تھا کہ وہ ایسی تمام اشیا میری بہن کے گھر بھجوا دیتے تھے یا انہیں میرے مکان کے بالا خانے میں محفوظ کردیا جاتا تھا۔
بہت سے ’تحائف‘ میں سے، جو والد نے کئی برسوں کے دوران مجھے دیے تھے، گم شدہ برقی آلات، ٹوٹی پھوٹی ناقابل مرمت تاریں، سی ڈی پلیئرز، ویڈیو ریکارڈر اور پرانی کیتلیوں سے بھرا بیگ شامل تھا۔
والد کا کہنا تھا کہ مجھے ان تاروں کی کسی بھی وقت ضرورت پڑسکتی ہے۔ چونکہ پاپا نے بیگ کو میرا مسئلہ بنا دیا تھا، اس لیے میں نے اسے سیڑھیوں کے نیچے الماری میں رکھ دیا تھا جس پر دھول جمتی رہتی تھی۔ اب حماقت ہی تو تھی کہ میں نے والد کی وفات کے بعد اس بیگ میں کھلونے رکھ دیے تھے کیوںکہ میں انہیں باہر نہیں پھینکنا چاہتی تھی۔
تاہم میری کونڈو کی کتاب کی مدد سے میں اس کوڑے، اس ڈھیر کو سنبھالنے کے قابل ہوگئی۔ جتنا ہوسکتا تھا کوڑے کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا اور اس دوران میرے لبوں پر میری کونڈو کے وہ لفظ تھے کہ زندگی میں کام آنے والی چیزوں کا شکریہ ادا کرتے جاؤ اور انہیں ٹھکانے لگاتے جاؤ۔
لیکن کتابوں کے معاملے میں میری کونڈو کی نصیحت پر بالکل عمل نہیں کروں گی لیکن اگر کبھی مجھے اپنی کتابوں کی کلیکشن میں سے کچھ کمی کرنی پڑی تو ’دی لائف چینجنگ میجک آف ٹائیڈنگ اَپ‘ اُن کتابوں میں شامل نہیں ہوگی، جسے باہر نکالا جائے گا۔