برطانیہ میں رواں سال کے اختتام تک خود کار گاڑیوں کو موٹر ویز پر چلنے کی اجازت ہوگی لیکن انہیں اپنی رفتار صرف 37 میل فی گھنٹہ تک رکھنی ہوگی۔
محکمہ ٹرانسپورٹ (ڈی ایف ٹی) نے اعلان کیا ہے کہ آٹومیٹڈ لین کیپنگ سسٹم (اے ایل کے ایس) رکھنے والی خود کار گاڑیوں کو سست رفتار کے ساتھ موٹرویز پر چلنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
اے ایل کے ایس ٹیکنالوجی ڈرائیور کو گاڑی کا کنٹرول خود کار نظام کو سونپنے کی اجازت دیتا ہے, لیکن ڈرائیور کو کنٹرول واپس سنبھالنے کے لیے دستیاب رہنا ہوتا ہے۔
اس نظام کو ڈی ایف ٹی کی جانب سے ’ٹریفک جام شوفر ٹیکنالوجی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نظام کیمروں اور سینسرز کی مدد سے کسی گاڑی کے دوسری گاڑیوں سے رکھنے جانے والے فاصلے اور رفتار کی نگرانی کرنے کے کام آتا ہے۔
اگر یہ نظام ’فوری ٹکراؤ کا خطرہ‘ محسوس کرتا ہے تو یہ ایک ’ہنگامی قدم‘ کو شروع کرتے ہوئے گاڑی کو بریک لگانے یا اس کی سمت بدلنے کا کام بھی کر سکتا ہے۔
ڈی ایف ٹی کے مطابق یہ ٹیکنالوجی سڑک پر حفاظت کو بڑھانے کے کام آ سکتی ہے کیونکہ 85 فیصد حادثات انسانی غلطی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔
ہائی وے کوڈ کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے مشاورتی عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے تاکہ خود کار نظام کے ذمہ دارانہ اور محفوظ استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔
وزیر ٹرانسپورٹ راچیل میکلین نے اس جدت کی تعریف ’برطانیہ میں خود کار گاڑیوں کے محفوظ استعمال کی جانب بڑے قدم‘ کے طور پر کی ہے جو گاڑیوں کے سفر کو ’ماحول دوست، آسان اور زیادہ قابل بھروسہ بناتے ہوئے قوم کو بہتر مستقبل بنانے میں مدد دے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس پرجوش نئی ٹیکنالوجی کا استعمال محفوظ ہو، اسی وجہ سے ہم ان قوانین پر مشاورت کر رہے جو ہمیں ایسا کرنے کے قابل بنائیں گے۔ ایسا کرکے ہم ٹرانسپورٹ کو سب کے لیے بہتر کرسکتے ہیں اور برطانیہ کے لیے بین الااقوامی طور پر سائنس کی سپر پاور کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واٹ کار کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر جم ہولڈر نے اس نئی پالیسی کو خود کار ڈرائیونگ کی جانب ’پہلا قابل فہم قدم‘ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت محدود شرائط ہیں کہ رفتار کم رکھنی ہوگی اور سیدھی سڑک پر چلنا ہوگا جہاں سڑک کے نشانات واضح ہوں۔ مفروضاتی طور پر یہ ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال کا ایک موثر طریقہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ ٹیکنالوجی کی تیاری کے ایک ’بین الااقوامی مقابلے‘ میں دوڑ رہا ہے۔ یہ اعلان ’ہمیں اس دوڑ میں واپس شامل‘ کر رہا ہے کیونکہ برطانیہ اس میں ’امریکہ اور چین‘ سے کچھ پیچھے ہے۔
آر اے سی فاؤنڈویشن کے ڈائریکٹر کے مطابق سٹیو گڈنگ کا کہنا ہے کہ انسان محفوظ ڈرائیونگ کے سلسلے کی ’کڑی کا ایک کمزور حصہ ہیں۔‘
لیکن انہوں نے اس حوالے سے موجود ان ’مسائل‘ کے بارے میں وارننگ دی ہے جو کنٹرول ٹیکنالوجی اور ڈرائیونگ سیٹ پر موجود انسان کو منتقل کرنے کے سلسلے میں درپیش ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی صورت حال کے خطرات موجود ہیں کہ انسان خود کار نظام پر حد سے زیادہ بھروسہ کریں اور اس سے ایسے افعال کی امید کریں، جس کی ان میں قابلیت نہیں ہے۔ اس صورت میں کیا ہوگا جب ڈرائیور ہنگامی طور پر گاڑی کا کنڑول واپس حاصل کرنے کی امید کرے گا؟ تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ ڈرائیور کو گاڑی کا کنٹرول واپس حاصل کرنے میں کئی سیکنڈز کا وقت لگ سکتا ہے۔‘
سوسائٹی آف موٹر مینوفیکچررز اینڈ ٹریڈرز کے چیف ایگزیکٹیو مائیک ہیوس کا کہنا ہے کہ ’آٹومیٹڈ لین کیپنگ جیسی ٹیکنالوجیز مستقبل میں آٹومیٹشن کی مزید جدید سطح حاصل کرنے کا راستہ ہموار کریں گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ترقی برطانیہ کی اس استعداد کو بڑھائے گی جو ایسی ٹیکنالوجیز کے استعمال میں اسے عالمی رہنما کا درجہ دے سکتی ہے۔ یہ ملازمتوں کے مواقعے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ ہماری سڑکیں دنیا میں محفوظ ترین ہوں گی۔‘
© The Independent