امریکی عہدیداروں کی جانب سے 2015 کے جوپری معاہدے میں واپسی کے حوالے سے ایران کے ساتھ کسی فوری معاہدے کے امکانات کو کم ظاہر کرنے کے باوجود سفارتی رابطوں اور امریکہ اور ایران کے درمیان بلاواسطہ بات چیت میں پیش رفت کی اطلاعات کے بعد دونوں ملکوں کے کسی ڈیل کے قریب ہونے کی قیاس آرائیاں جنم لینے لگی ہیں۔
ویانا میں جاری مذاکرات کے دوران سوموار کو امریکہ اور برطانیہ نے ایران سے آنے والی ان اطلاعات کو مسترد کر دیا جن کے مطابق امریکہ اور برطانیہ ایران کے ساتھ فوری طور پر قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہو گئے ہیں۔ ایسا کوئی بھی قدم جوہری ڈیل کی بحالی کے لیے اعتماد سازی کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس جوہری معاہدے میں واپسی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کا خارجہ پالیسی کے حوالے سے سب سے بڑا اور متنازع فیصلہ ہو گا۔ یہ ایک ایسی ڈیل کو بحال کر دے گا جو صدر بائیڈن کے ساتھیوں نے براک اوباما کے دور میں ممکن بنائی تھی لیکن سابق صدر ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے علیحدہ کر لیا تھا جبکہ انہوں نے امریکہ کو اس سے باہر رکھنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی۔
اس ڈیل کی ممکنہ بحالی کے لیے دی جانے والی رعایتیں ری پبلکنز کے علاوہ اسرائیل اور امریکہ کے عرب اتحادیوں کو برہم بھی کر سکتی ہیں۔
ایسے وقت میں جب امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے پیر کو لندن میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی اطلاعات کو مسترد کیا ٹھیک اسی وقت اعلیٰ امریکی سفارت کار مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کے حکمرانوں سے مل رہے تھے۔ جب کہ اس جوہری ڈیل کے دو بڑے حامی ڈیموکریٹ سینیٹرز کرس کونز اور کرس مرفی خطے کا دورہ کر رہے تھے۔
یہ ملاقاتیں ایک ہفتہ قبل واشنگٹن میں صدر بائیڈن، ان کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون، وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن، ان کی نائب وینڈی شیرمین، ایران کے لیے نمائندہ خصوصی راب میلی اور دیگر کی اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے بعد کی جا رہی تھیں۔
اسرائیلی امریکہ اور ایران کے درمیان کسی بھی طرح کے معاہدے کے مکمل طور پر خلاف ہیں جسے وہ یہودی ریاست کے وجود کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے اسرائیلی حکام کے ساتھ کم سے کم تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ جمعے کو موساد کے سربراہ یوسی کوہن سے ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر بھی شامل ہوئے تھے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی کے مطابق یوسی کوہن کو ویانا مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعے اور ہفتے کو ایران اور ایران سے تعلق رکھنے والے ذرائع ابلاغ نے یہ خبریں نشر کیں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان طے پا گیا ہے کہ سال 2015 کے جوہری معاہدے کی شرائط پر واپس آنے کے بدلے میں امریکہ ایران کو کیا دے گا۔ امریکہ نے ایران کو ایٹمی پروگرام میں بندشوں کے بدلے پابندیوں میں اربوں ڈالر کی نرمی کی۔ پھر اتوار کو قیدیوں کے تبادلے سے متعلق اطلاعات سامنے آئیں۔
امریکی حکام نے فوری طور پر ان اطلاعات کو قبل از وقت اور غیر مصدقہ قرار دے ڈالا گو کہ پابندیاں اٹھائے جانے، ممکنہ ریلیف اور ایران میں موجود امریکیوں کی آزادی کے حوالے سے امریکہ کی ترجیحات پہلے سے ہی واضح ہیں۔
امریکی انتظامیہ کے مطابق ویانا کے مذاکرات میں محدود پیمانے پر پیش رفت ہو رہی ہے۔ ویانا مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت راب میلی کر رہے ہیں جو سال 2015 کی جوہری ڈیل میں امریکہ انتظامیہ کا اہم کردار تھے۔ جبکہ ان کے علاوہ جیک سلیوان اور وینڈی شیرمین بھی اس معاہدے کو ممکن بنانے والے افراد میں شامل تھے۔
بائیڈن اتنظامیہ نے فوری طور پر ایران سے آنے والی ان اطلاعات کو مسترد کر دیا۔ محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی کامیابی کے قریب نہیں پہنچے۔‘ جبکہ قیدیوں کے تبادلے کے دعوے کو بھی غلط قرار دیا گیا۔ جیک سلیوان خود بھی اس حوالے سے محتاط رویے کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’ویانا میں معاملات ابھی غیر واضح ہیں۔‘
ویانا میں مذاکرات کار مذاکرات کے چوتھے دور کی تیاری میں مصروف ہیں۔ جبکہ اس ڈیل کے مخالفین پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان مذاکرات میں کسی مختصر یا درمیانی مدت کے ممکنہ حل کو روکا جا سکے۔
عرب ریاستوں اور اسرائیل کے علاوہ کانگریس میں موجود ری پبلکن ارکان بھی اس کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں اور اس حوالے سے قانون سازی کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران میں انقلابی گارڈز ویانا مذاکرات کو بنیاد بنا کر رواں سال کے انتخابات میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے بطور امیدوار سامنے آنے کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈیل کے ناقدین راب میلی اور ان کے ساتھیوں کے مذاکراتی طریقہ کار پر اعتراض کر رہے ہیں۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ راب میلی اور ان کے ساتھی ایران پر موجود اس برتری کو ختم کر رہے ہیں جو سابق صدر ٹرمپ نے پابندیاں دوبارہ عائد کر کے حاصل کی تھی۔ ڈیل میں امریکہ کی واپسی ان میں سے کئی پابندیوں میں نرمی کا موجب بنے گی۔ جن میں وہ پابندیاں بھی شامل ہیں جو غیر جوہری معاملات سے متعلق ہیں جیسے کہ دہشت گردی، بیلسٹک میزائلز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں۔
دوسری جانب معاہدے کے حامی اس کے ناقدین پر سفارت کاری کو مسترد کرنے اور جنگ کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پابندیوں میں نرمی ہی وہ واحد طریقہ ہے جو ایران کو جوہری ہتھیاروں کے راستے کو ترک کر کے معاہدے پر مکمل عملدرامد کی جانب واپس لا سکتا ہے۔