صوبہ بلوچستان میں سیاسی اختلافات اور تبدیلیوں کی بازگشت کا آغاز سوشل میڈیا سے ہوا لیکن بعد میں اس کو سیاسی رہنماؤں کے بیانات اور وزیراعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی قیادت کی ناراضگی سے تقویت ملی۔
بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اور پاکستان تحریک انصاف جو اتحادی ہیں اور اکثریت بھی رکھتے ہیں ان کے درمیان تلخیاں سردار یار محمد رند کے اسمبلی اجلاس کے دوران مرکزی قیادت سے شکوہ کرنے سے پیدا ہوئیں۔
پی ٹی آئی کے صدر اور وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے اجلاس کے دوران مرکز کی طرف سے تین سال سے نظر انداز کرنے پر عید کے بعد وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے تحفظات سامنے رکھنے اور شکایات کا ازالہ نہ ہونے پر معاون خصوصی کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔
جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن شائستگی اور اخلاقی اصولوں کا پاس رکھنا چاہیے۔
بعد میں معاملہ مزید بگڑ گیا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ سے ایک روز قبل اجلاس طلب کر کے وزیراعلیٰ ہاؤس کی کسی تقریب میں نہ جانے کا فیصلہ کیا۔
پارٹی رہنما نصیب اللہ مری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس روز پارٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے بیان پر غور کیا گیا تھا۔
یہ صورت حال تو وزیراعظم عمران خان کی آمد کے موقع پر صوبائی قیادت کے درمیان ملاقات میں شکایات کے ازالے کی یقین دہانی پر تبدیل ہو گئی جس کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت وزیراعظم کی تقریبات میں شریک رہی۔
اس کے بعد اس سیاسی صورت حال میں سوشل میڈیا پر وائرل وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے جاری ایک خط کی انٹری نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا یہ خط وزیراعظم عمران خان کی طرف سے گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی کو لکھا گیا تھا جس میں ان سے ’استعفیٰ‘ دینے کا کہا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے اس کی خط کے حوالے سے وزیراعظم ہاؤس سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے اس خط کی تصدیق کی ہے۔
تاہم اس حوالے سے جب رد عمل جاننے کے لیے گورنر بلوچستان کے سیکرٹریٹ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
متعلقہ سیکرٹری نے بتایا کہ یہ گورنر بلوچستان کا اپنا معاملہ ہے وہ ہی اس پر کوئی ایکشن لے سکتے ہیں۔
ادھر پی ٹی آئی کے ایک رہنما سے جب یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ گورنر کی تبدیلی کس کے کہنے پر کی جا رہی ہے تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیراعظم کے دورہ کوئٹہ کے دوران گورنر کو ہٹانےکی بات نہیں ہوئی بلکہ اس دوران صوبائی قیادت نے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔
رہنما نے کہا کہ گورنر کو ہٹانے کا فیصلہ پہلے سے طے شدہ تھا جس کے لیے پارٹی نے سید ظہور آغا کا نام فائنل کر لیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سید ظہور آغا ہمارے امیدوار ہیں جلد ہی وہ گورنر کے عہدے پر فائز ہوں گے۔
جہاں ایک طرف گورنر بلوچستان کی تبدیلی کا مسئلہ چل رہا ہے۔ وہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں نے ایک اجلاس میں سردار یار محمد کے حوالے سے شکایات پیش کی ہیں۔
یکم مئی کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق رہنماؤں نے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ کو سردار یار محمد کی طرف سے محکمہ تعلیم میں غیر ضروری مداخلت اور سیاسی بنیادوں پر ’نچلے طبقے‘ کے افسران کو تبدیل کرنے کے حوالے سے بتایا۔
ارکان نے سول سیکرٹریٹ میں سردار یار محمد رند کے مسلح محافظوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد کے باعث ماحول میں بے چینی کے مسئلے سے بھی آگاہ کیا۔
جس پر پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی کے ترجمان نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان کے بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیراعلیٰ سے پی ٹی آئی بلوچستان کو درپیش تحفظات کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم نے وفاقی وزیر اسد عمر کو رابطہ کار مقرر کیا ہے۔
بیان کے مطابق پی ٹی آئی یہ معاملہ ترجیحاً ان کے سامنے رکھے گی اور اس کے بعد پی ٹی آئی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے جاری بیان پر دستاویزی ثبوت سمیت اپنا تفصیلی موقف جاری کرے گی۔
یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی سے ان کا قلمدان واپس لے لیا۔
اس خبر کے بعد سوشل میڈیا میں صوبائی حکومت میں تبدیلیوں اور اتحادیوں میں اختلافات کی چلنے لگیں جس پر حکومتی ترجمان وضاحت دینے پر مجبور ہوگئے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اس صورت حال پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ سردار صالح بھوتانی سے قلم دان واپس لینے کے بعد کابینہ میں مزید تبدیلیوں کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔
’بلوچستان کابینہ بہتر انداز میں حکومتی امور انجام دے رہی ہے۔ وزیر بلدیات کو ہٹانے کا مطلب مزید تبدیلی نہیں ہے۔‘
قلمدان واپس لینے پر سابق صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سینیئر ساتھیوں سے رابطے میں ہوں جن کی مشاورت سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کروں گا۔
دوسری جانب سیاسی مبصرین اس تمام صورت حال کو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے ہیں۔
سیاسی امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی مصطفیٰ ترین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی کی نسبت اس مرتبہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں میں اختلافات کی شدت زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ اس سے قبل بھی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کی گئی جس میں سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس متحرک نظر آئے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔
مصطفیٰ ترین نے بتایا کہ چونکہ بلوچستان عوامی پارٹی میں فارورڈ بلاک بن چکا ہے جس کی صوبائی حکومت کے ترجمان تردید کرتے ہیں۔ اگر وہ یہ کہیں کہ جام کمال کے خلاف محاذ نہیں بنا تو یہ کہنا غلط ہو گا۔
مصطفیٰ سمجھتے ہیں کہ محاذ کی ابتدا ہو گئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے مخالف سمجھے جانے والے صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی سے قلمدان واپس لے لیا ہے۔
اس تمام صورت حال ناراضگیوں اور اختلافات کے باوجود سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اب بھی مضبوط ہیں۔ جو اپنی حکمت عملی سے ایسے حالات سے نمٹنا جانتے ہیں۔