پی ٹی آئی کو چار نشستوں پر شکست: وجہ مقبولیت میں ’کمی‘ یا کارکردگی؟

پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ضمنی انتخاب میں حکمران جماعت ہی کامیاب ہوتی ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی جیتی ہوئی چار نشستیں ہار چکی ہے۔

پی ٹی آئی کو جن حلقوں میں شکست ہوئی ہے ان میں دو حلقے این اے 35 بنوں اور 131 لاہور بھی شامل ہیں جہاں وزیر اعظم عمران خان خود الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئے تھے (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ضمنی انتخاب میں حکمران جماعت ہی کامیاب ہوتی ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی جیتی ہوئی چار نشستیں ہار چکی ہے۔

ان حلقوں میں دو حلقے این اے 35 بنوں اور 131 لاہور بھی شامل ہیں جہاں وزیر اعظم عمران خان خود الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئے تھے۔

اس کی وجوہات جو بھی ہوں لیکن حکومتی جماعت کے لیے ضمنی انتخاب میں ناکامی منفی رجحان اور شہرت میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق عام طور پر تاثر یہی ہوتا ہے کہ ضمنی الیکشن حکومتی جماعت ہی جیتتی ہے کیونکہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے اپنے ووٹرز، سپورٹرز کو مطمئن کرنے کا زیادہ چانس رکھتی ہے۔

ان کے خیال میں قومی سمبلی کے جیتے گئے چار حلقوں میں ناکامی حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان اور عوام میں اس کی مقبولیت میں کمی کا سبب بن رہی ہے۔ ان حالات میں عام انتخابات کی شفافیت سے متعلق اپوزیشن کے بیانیے کو بھی تقویت مل رہی ہے۔

پی ٹی آئی نے کون سے حلقے جیت کر ہارے؟

کراچی کے این اے 249 میں جمعرات کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران جماعت کے امیدوار امجد آفریدی پانچویں نمبر پر رہے جبکہ یہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل کامیاب قرار پائے ہیں۔

مسلم لیگ ن دوسرے، کالعدم تحریک لبیک پاکستان تیسرے، پی ایس پی چوتھے نمبر رہیں۔

یہ نشست 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار فیصل واوڈا نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو شکست دے کر جیتی تھی۔

این اے 35 بنوں کےعام انتخابات میں وزیر اعظم عمران خان نے اکرم درانی کو شکست دی تھی۔ ان کے چھوڑنے پر یہ سیٹ خالی ہوئی تو اکرم درانی کے بیٹے جے یو آئی ف کے امیدوار زاہد اکرم درانی نے ضمنی الیکشن میں اس نشست پر پی ٹی آئی امیدوار نسیم علی شاہ کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 56 اٹک سے پی ٹی آئی امیدوار طاہر صادق نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان کی دو نشستوں پر کامیابی کے بعد دوسری نشست کا حلف اٹھانے پر یہ نشست خالی ہوئی تو ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ملک سہیل خان نے پی ٹی آئی کے ملک خرم علی خان کو شکست دے کر یہ نشست جیتی۔

اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 131 لاہور سے عام انتخابات کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق کو معمولی فرق سے شکست دی تھی لیکن انہوں نے جب یہ نشست خالی کی تو ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی کے امیدوار ہمایوں اختر پر واضح برتری سے نشست جیت لی تھی۔

تجزیہ کار اور سابق نگران وزیر اعلیٰ حسن عسکری کہتے ہیں کہ حکومتی جماعت نے اپنے جیتے ہوئے چار قومی اسمبلی کے حلقوں میں ناکامی سے اپنی ساکھ خراب کی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔

پی ٹی آئی جیتی ہوئی نشستوں پر کامیابی کیوں حاصل نہ کر سکی؟

یہ سوال جب سیاسی تجزیہ کار انجم رشید سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت کی عوام میں مقبولیت مسلسل کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ بڑے بڑے دعووں کے باوجود معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال، دوسری وجہ سابق حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات لگا کر ان کا ثابت نہ ہونا اور تیسری وجہ مس مینجمنٹ اور ناقص کارکردگی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پانامہ کیس میں نااہلی کے فیصلے سے سیاسی رہنماؤں کی کرپشن کے الزامات پر گرفتاریوں کے باوجود عوام میں یہ تاثر قائم نہیں ہوسکا کہ موجودہ حکمرانوں کے دعوے سچے تھے۔

’اس کی نسبت حکومتی بیانیہ کے مخالف عوام میں اپوزیشن رہنماؤں کی ہمدردیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ حکومتوں پر الزامات تو ضرور لگے لیکن معاشی صورتحال پہلے سے بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔‘

کابینہ اداروں کے سربراہان اور محکموں کے اندر عہدیداروں کی مسلسل تبدیلیاں بھی عدم اطمینان کا باعث بن رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انجم رشید نے کہا کہ عوام کی موجودہ حکمرانوں سے سابقہ کے مقابلہ میں توقعات تھیں وہ بھی پوری نہ ہوسکیں۔ بڑے منصوبے بھی دکھائی نہیں دیے جبکہ ملکی قرض پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے جبکہ موجودہ حکمران سابق حکومتوں پر بیرونی قرضے لینے سے متعلق تنقید کرتے آئے ہیں۔

ان کے مطابق یہ ایسے اسباب ہیں جو عوام میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کی مقبولیت کم کر رہے ہیں۔

حسن عسکری کے مطابق حکومتی پارٹی نے جیتی ہوئی چار نشستیں ضرور ہاری ہیں لیکن اسے مکمل حکومتی ناکامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ان کے مطابق  یہ بھی ٹھیک ہے کہ حکومتِ وقت اپنے وسائل سے ضمنی الیکشن جیت جاتی ہے مگر ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ حلقوں میں مقامی سطح پر سیاسی جوڑ توڑ کی بنیاد پر حکومتی امیدوار کو شکست ہو جاتی ہے۔

سابق نگران وزیر اعلیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے قومی اسمبلی کے جن چار حلقوں میں شکست کھائی وہ انہوں نے پہلے جیتی تھیں اس کی بھی وجوہات ہیں جن سے کئی حلقوں میں حکومتی کارکردگی کا گراف نیچے جا رہا ہے، خاص طور پر کراچی میں شکست سے بھی بڑھ کر پارٹی پہلے سے پانچویں نمبر پر چلی گئی۔

انہوں نے وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر سکی، دوسرا یہ کہ انتخابی حکمت عملی بھی درست نہیں جس میں امیدواروں کا انتخاب مقامی سطح پر پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ جسے سیاسی مشینری کہا جاتا ہے اور اس کی منزل انتخابات میں کامیابی ہوتا ہے۔

حسن عسکری کے مطابق پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ اتنا فعال نہیں رہا جتنا ماضی میں تھا۔ اس کے ذریعے مقامی ذمہ دار شہریوں کے ساتھ رابطوں میں رہتے تھے ان کے مسائل حل نہیں کر سکتے تھے تو کم از کم سنتے تو تھے۔ مگر اب ایسی صورتحال دکھائی نہیں دیتی اور جن رہنماؤں کو حکومتی عہدے ملے انہوں نے بھی گراس روٹ لیول پر کوئی موثر کارکردگی نہیں دکھائی جس کا نقصان مجموعی طور پر حکومت کی شہرت کو پہنچ رہا ہے۔

ان کے خیال میں جب کوئی بھی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو اس کی توجہ تقسیم ہو جاتی ہے، ایک طرف سرکار چلانا دوسری طرف پارٹی کارکنوں کو خوش رکھنے کا امتحان ہوتا ہے اور اپوزیشن میں کسی بھی پارٹی کے پاس لوگوں تک رابطوں کو زیادہ وقت ہوتا ہے پھر ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ حکومتی سطح پر ایسی کارکردگی ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ خوش ہوں وہ بھی نہ ہوسکا۔

انجم رشید اس بارے میں کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھی تو 2013 کے انتخابات ہوتے ہی دھاندلی کا الزام لگایا اور ن لیگ کی حکومت سے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا جو منظور نہ ہونے پر طویل دھرنا بھی دیا گیا تھا۔

ان کے مطابق جب 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تو موجودہ اپوزیشن نے بھی دھاندلی کا الزام لگایا، عوامی رابطہ مہم بھی جاری ہے مگر ان حالات میں یوں پی ٹی آئی کا چار حلقوں میں کامیابی کے بعد شکست کھا جانا موجودہ اپوزیشن کے الزام کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست