پاکستان میں کھیلوں کی نئی نیشنل پالیسی پر مختلف فیڈریشنوں کی جانب سے اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے، جس کے تناظر میں تین مئی کو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے جنرل کونسل اجلاس میں اس یکطرفہ پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے فیڈریشنوں کی خودمختار حیثیت بحال رکھنے کے لیے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور ہوئی۔
لاہور میں منعقد ہونے والے اس ورچوئل اجلاس میں کہا گیا کہ وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ بیوروکریسی کے نرغے میں ہے جو غلط فیصلے کرتے ہوئے کھیلوں کو نقصان پہنچانے کا موجب بن رہے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر جنرل ریٹائرڈ عارف حسن کی قیادت میں ایک وفد بہت جلد وزیراعظم پاکستان اور بین الصوبائی رابطے کی وزیر فہمیدہ مرزا سے ملاقات کرکے انہیں فیڈریشنوں کو لاحق مسائل کے حوالے سے آگاہ کرے گا۔
اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا کی سربراہی میں بننے والی نئی سپورٹس پالیسی کا ڈرافٹ وزیراعظم عمران خان کو بھجوانے سے قبل نیشنل سپورٹس فیڈریشن سمیت کسی بھی سٹیک ہولڈر کو نہ تو کسی اجلاس میں طلب کیا گیا اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی مشاورت کی گئی۔
انڈپینڈنٹ اردو کو بعض کھیلوں کے نمائندوں کی جانب سے موصول ہونے والی خفیہ اطلاعات کے مطابق نئی سپورٹس پالیسی تیار کرنے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی اس میں اکثریت ایسے افسران کی تھی جو نہ تو کھیلوں کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ذوالفقار بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کھیلوں کے حوالے سے پہلے ہی متنوع مسائل کا شکار ہے، جن کو اسی صورت میں دور کیا جا سکتا ہے، جب تمام فیڈریشنوں و ایسوسی ایشنز کو سنا جائے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک کے لیے عالمی اولمپک کمیشن (آئی او سی) کا چارٹر پہلے سے موجود ہے، لہذا اس چارٹر کی موجودگی میں متوازی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔
ذوالفقار بٹ نے مزید کہا کہ اگر علیحدہ ایک پالیسی بنانا مقصود ہوتو یہ خیال رکھاجاتا ہے کہ عالمی اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی نہ ہو۔
بصورت دیگر کسی قسم کی خلاف ورزی کی صورت میں ایسے ملک پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور وہ بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے لیے معافی ملنے تک حصہ نہیں لے سکتا۔
انہوں نے کہا: 'مذکورہ وفاقی وزارت کا فیڈریشنوں کو نظرانداز کرنا ایک معمول بنتا جارہا ہے۔ اسی رویے کے سبب 2014 میں پاکستان اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پابندی کی زد میں آنے سے بال بال بچ گیا تھا، بعدازاں پاکستان کو تحریری طور پر معافی مانگنی پڑی تھی کہ وہ آئندہ اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی کرنے سے اجتناب برتےگا۔'
اس معاملے پر خیبرپختونخوا تائیکوانڈو ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل وقار آفریدی نے کہا کہ انہیں زیادہ اعتراض اس بات پر ہے کہ سپورٹس پالیسی بنانے کے لیے انہیں کسی اجلاس میں بلا کر ان سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی۔
وقار آفریدی کے مطابق: 'ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز، زمینی حقائق سے زیادہ باخبر ہوتی ہیں۔ کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یا پالیسی کی تیاری میں اگر ہم سے مشاورت نہیں ہوگی تو یہ کس قسم کی پالیسی ہوگی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح خیبر پختونخوا کبڈی فیڈریشن کے رکن چوہدری سرور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وفاقی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ کے حالیہ عمل سے انہیں بھی رنج ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پالیسی پر اعتراضات کے بعد وزارت نے ان سے 28 اپریل کو ایک میٹنگ کی۔
سرور نے بتایا کہ انہوں نے یہ بھی سنا ہے کہ وزارت نے باری باری مختلف فیڈریشنوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
خیبر پختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ذوالفقار بٹ نے موضوع پر مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی صوبے میں کھیلوں کی فیڈریشنز یا ایسوسی ایشن خود مختار ادارے ہوتے ہیں، جن کوفیصلے کے عمل میں نظرانداز کرنا کھیل کے شعبے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
بقول ذوالفقار بٹ: 'پاکستان میں ہمارے یہ حالات ہیں کہ ایک اولمپک میڈل حاصل کرنے کا خرچہ تک نہیں اٹھایا جارہا۔ جو ممالک کھیلوں میں آگے ہیں انہیں اپنی ضروریات، مسائل اور رکاوٹوں کا علم ہوتا ہے۔ ہماری جانب سے نئی پالیسی پر تنقید کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ براہ راست وابستہ افراد ہی مذکورہ بالا نکات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔'
دوسری جانب سیکرٹری خیبر پختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن نے کہا کہ ایک اولمپک میڈیل جیتنے کے لیے کسی ملک کو پانچ ملین ڈالرز خرچہ کرنا پڑتا ہے، جس میں کھلاڑی کی ضروریات و سہولیات سے لے کر اس کے سفری اخراجات اور قیام کا خرچہ شامل ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ تو بہت ہے لیکن اس ٹیلنٹ کو نکھارنے اور کھیلوں میں نام پیدا کرنے کے لیے حکومت کو خطیر فنڈز خرچ کرنے سمیت تمام فیڈریشنز و ایسوسی ایشنز کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔
فیڈریشنوں اور ایسوسی ایشنز کے اعتراضات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ سے بعض سوالات کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔