سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) 2020 کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے مطابق کُل 18 ہزار553 امیدواروں میں سے 364 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ کامیابی کا تناسب 1.962 فیصد رہا ہے۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن اسلام آباد کی جانب سے جمعرات کی شام جاری ہونے والے نتائج کے مطابق ماہین حسن نے سب سے زیادہ نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔
ڈائریکٹر ایف پی ایس سی کے جاری کردہ نتائج کے مطابق کل 376 امیدوار پاس ہوئے، ان میں سے آگے چل کر 12 امیدوار انٹرویو میں ناکام رہے۔ پاس ہونے والوں میں 226 مرد جبکہ 138 خواتین تھیں۔
اس مرتبہ کامیابی کا تناسب 2019 کے نتائج کے برعکس تھوڑا کم رہا کیونکہ 2019 میں مجموعی طور پر 14 ہزار521 امیدواروں نے حصہ لیا تھا، جن میں سے 365 کامیاب ہوئے جبکہ کامیابی کا تناسب 2.51 فیصد تھا۔
پنجاب سے امیدواروں کی کامیابی پر تنقید
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی لسٹ کےمطابق کُل 364 امیدواروں میں سے پنجاب کے سب سے زیادہ 123 امیدوار کامیاب قرار پائے، جنرل میرٹ پر 17 امیدوار، سندھ رورل اور اربن کے مجموعی طور پر 86 امیدوار، بلوچستان کے 17، خیبر پختونخواہ کے 69، گلگت بلتستان، فاٹا سے 33 اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے 19 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 141 دوسرے امیدوار بھی پاس ہوئے۔
زیادہ کامیاب ہونے والے امیدواروں کا تعلق پنجاب سے ہونے پر سوشل میڈیا صارفین تنقید کر رہے ہیں کہ پنجاب سے ہی زیادہ امیدوار کیوں کامیاب ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ماہر تعلیم رسول بخش رئیس نے کہا کہ یہ تاثر نامناسب ہے کہ سی ایس ایس میں پنجاب کے امیدواروں کو رعایت دی جاتی ہے یا ان کے لیے زیادہ آسانی دی جاتی ہے کیونکہ تمام صوبوں کو امتحانات میں حصہ لینے کے لیے کوٹہ دیا جاتا ہے۔
’لیکن اگر پنجاب کے امیدوار زیادہ کامیاب ہوتے ہیں تو اس کی وجہ معیاری تعلیم کے مواقع ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اسلام آباد، کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں تعلیم کا معیار بہتر ہے۔
’اندرون سندھ اور بلوچستان میں پسماندگی کی وجہ سے تعلیمی ادارے اس قابل نہیں کہ وہ طلبہ کو مقابلے کے امتحانات میں بہتر کارکردگی کے قابل بنا سکیں۔‘
رسول بخش نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر سی ایس ایس کے نتائج کا تناسب دیکھ کر مایوسی اور اپنے نظام تعلیم یا حکومتی ترجیحات نہ ہونے پر افسوس ہوتا ہے۔
’ہمارے ادارے اس قابل نہیں کہ عالمی سطح کا تعلیمی معیار فراہم کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ سی ایس ایس جیسے امتحانات میں لمز، ایچی سن و دیگر بڑے اداروں کے علاوہ سرکاری جامعات سے پڑھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہزاروں امیدواروں میں سے چند سو کا پاس ہونا حوصلہ افزا نہیں۔
’ہمیں خامیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ جو طلبہ امتحان دیتے ہیں وہ اکثر بھرپور تیاری کے ساتھ شریک ہوتے ہیں مگر نتائج سے لگتا ہے جیسے طلبہ نالائق ہیں حالانکہ ایسا نہیں۔
رسول بخش کے مطابق وہ خود ان امتحانات کی نگرانی اور پرچے چیک کرتے رہے ہیں لہٰذا انہیں اندازہ ہے کہ اس نظام میں کس قدر خامیاں ہیں.
’پیپر چیک کرنے والوں یا امتحانات منعقد کرانے والوں کو وظیفہ کم ملتا ہے اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے کوئی مکمل توجہ کے ساتھ پیپر چیک نہیں کرتا اور طلبہ میں پاس ہونے کے لیے قسمت کا تاثر پایا جاتا ہے۔‘
سول سروسز سے متعلق قوانین کے ماہر شعیب شاہین نے بھی اس تاثر کو مسترد کیا کہ سی ایس ایس کے امتحانات میں پنجاب کے امیدوار کسی خاص وجہ سے زیادہ پاس ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ایف ایس سی نے امتحان دینے کے خواہش مند امیدواروں کے لیے کوٹہ مختص کر رکھا ہے، جس میں تمام صوبوں کا الگ الگ کوٹہ ہوتا ہے۔
اس کوٹے کے مطابق درخواستیں منظور کی جاتی ہیں اور پھر امتحان کے نتائج آنے کے بعد تقرریوں کی تجاویز بھی اسی کوٹہ کے مطابق کی جاتی ہیں۔
ان کے مطابق تمام صوبوں میں مختلف محکموں کی خالی آسامیوں پر تقرریوں کی ڈیمانڈ کے مطابق کوٹہ مختص کیا جاتا ہے اور اسی لحاظ سے تقرریوں کی تجویز دی جاتی ہے۔
اس میں پاکستان کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھنے والے کامیاب امیدوار کا نام شامل کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب سی ایس ایس کا دو بار امتحان دینے والے ایک امیدوار کاشف ندیم نے بتایا کہ سی ایس ایس جیسے امتحانات ہر سال مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔
’جتنی بھی تیاری کر لیں لیکن امتحان کے وقت احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اس معیار کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں ملا اور جن اداروں میں زیر تعلیم رہے وہاں بھی ایسی تعلیم کی سہولت نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ ایم اے سیاسیات اور وکالت کی ڈگری لے چکے ہیں مگر دو بار سی ایس ایس کا امتحان دیا لیکن پاس نہیں ہوسکے کیونکہ ان کی قسمت میں سرکاری افسر بننا نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دو بار امتحان دینے کے باوجود انہیں سمجھ نہیں آسکی کہ اس امتحان میں کامیابی کے لیے کس قدر تیاری کرنی چاہیے۔
’شاید ابتدا سے ہی ایسا تعلیمی معیار درکار ہوتا ہے جو بیرون ملک کالجز یا یونیورسٹیز کا ہے یا یہاں جو پرائیویٹ بڑی درس گاہیں ہیں وہاں سے تعلیم حاصل کر کے ہی حتمی کامیابی کا یقین ہو سکتا ہے۔‘