شميم حنفی چلے گئے۔ ادب میں انسان دوستی کا ایک باب بند ہوا۔ عجیب عالم ہے، انسانیت پر پیغمبری وقت ہے۔ وہ کندھے کم ہو رہے ہیں جو دوسروں کے دکھ اٹھانے کا کام کرتے ہیں۔
شمیم حنفی اردو کے معروف نقاد، دانشور، مفکر اور ڈراماٹسٹ تھے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے عالمی شہرت یافتہ نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کرونا کا نشانہ بنے تھے۔ اب ایک اور نقاد کو کرونا نے چھین کر اردو ادب کو مزید تہی مایہ کر دیا ہے۔
شمیم حنفی 17 مئی 1938 کو بھارتی شہر سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ الہٰ آباد کی معروف یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی کی جامعہ ملیہ میں پڑھاتے رہے۔ انہوں نے تنقید کی متعدد کتابیں لکھیں، جن میں ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس،‘ ’جدیدیت اور نئی شاعری،‘ ’کہانی کے پانچ رنگ ،‘ ’میرا جی اور ان کا نگار خانہ،‘ ’میر اور غالب،‘ ’اردو کلچر اور تقسیم کی روایت،‘ اور ’خیال کی مسافت‘ وغیرہ شامل تھے۔
ان کا ایک شعری مجموعہ ’آخری پہر کی دستک‘ شائع ہوا، جب کہ ڈراموں کی کتابیں ’مجھے گھر یاد آتا ہے،‘ ’آپ اپنا تماشائی،‘ ’مٹی کا بلاوا‘ اور ’بازار میں نیند‘ چھپ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ تراجم کی بھی متعدد کتابیں شامل ہیں۔
شميم حنفی استاد تھے، صاحب فیض۔ ایک زندگی انسان کو برتر دیکھنے کے شوق میں گزار دی۔ تنقید، ترجمہ، تدریس، ڈراما، خاکہ، کالم کا سہارا لیا۔ ساری زندگی اس امید کا دامن تھام کر رکھا کہ انسان اسفل نہیں۔ وہ آوازوں کے شور سے نکلے گا اور خامشی اور توازن سے اپنے مرتبے کو پہچان لے گا۔ اس منزل کی سمت نمائی کے لیے شمیم حنفی نے تاريخ، تہذیب اور تخلیقی تجربے کا سہارا لیا۔ اشتراک کی حمایت کی۔ تصادم سے گریز کیا۔ میرا بائی، کبیر، ٹیگور، شیکسپیئر، میر، غالب، اقبال کو زمانی اور زمینی سرحدوں سے اوپر اٹھ کر دیکھا۔ زبان کو رابطے کا وسیلہ بنایا۔ لسانی تعصب کی نفی کی۔
درج بالا امتیازات ایک استاد کے کتنے شایان شان ہیں۔ ایک استاد پر کس طرح جچ کر آتے ہیں۔ وہ برعظیم کے تہزیبی تفوق کے حدی خواں تھے۔ میرا جی کے عاشق۔ ادب میں ہر اس نظریے کے حامی جس میں آہستہ روی ہو۔ دھیما پن ہو۔ اس آہستہ روی کی تلاش میں ادب کے ساتھ موسیقی اور مصوری کا سہارا لیا۔ بھیم سین جوشی، ملک ارجن منصور اور کمار گندھرو کی آوازوں سے محبت کی۔ اپنے دوست رام چندرن کی تصویروں سے آنکھوں کو روشنی دی۔ کندیرا،مارکیز، نجیب محفوظ، بورخیس اور پاموک کی تحریروں سے مس رکھا۔ سورہ یسین اور سورہ مزمل اور سورہ رحمان سے دن کا آغاز اور اختتام کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے خیال کی مسافت میں جتنی وسعت تھی اس کے پیچھے اسی قبیل کے تہذیبی سہارے موجود تھے۔ کلاسیکیت اور جدیدیت کا برابر احترام کیا۔ ہم سفروں کے درمیاں اور ہم نفسوں کی بزم میں ان کی خاکوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کتنا بھرا پرا ادبی قبیلہ انہیں دیکھنے کو ملا۔ اس میں الہٰ آباد،علی گڑھ، دہلی، لاہور کی ادبی ہستیاں رواداری کی الگ دنیا لیے ہوئے ہیں۔ فراق، آل احمد سرور،احتشام حسین، قرة العین حیدر، انتظار حسین، زاہد ڈار منیر نیازی، محمد سلیم الرحمٰن، سید وقار حسین غرض ادبی قبیلے کی کوئی نامور ہستی ہو گی جس سے ان کے مراسم نہ ہوں اور جنہیں انہوں نے اپنی محبت سے یاد نہ کیا ہو۔
شمیم حنفی ادب میں فنی پہلوؤں سے زیادہ فکری حوالوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ ادب کو ایک شماریاتی سرگرمی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ کل کے ساتھ آج کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔ انہیں وہ ادیب زیادہ بھاتا تھا جو اپنے معروض سے مس رکھتا ہو۔ شہر، شہر کی زندگی، ادب، ادیب،معاشرتی تشدد، انفرادی اور اجتماعی شعور غرض ہر وہ جذبہ انہیں پسند تھا جس میں انسان کے لیے امید کا دروازہ کھلا ہے۔
کہانی اور کہانیوں کے رنگ، منٹو، غالب، اقبال، میرا جی، راشد ان کے لیے ایک سی کشش رکھتے تھے۔ وہ ہندوستان اور پاکستان میں برابر قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ لاہور میں تشریف لاتے تو شہر جیسے آباد ہو جاتا۔ انتظار حسین سے ان کی محبت کسی مثال کی محتاج نہیں۔ محمد سلیم الرحمٰن اور سہیل احمد خان سے انس تھا۔ تحسین فراقی کی کتاب ’فکریات‘ کا ذکر والہانہ پن سے کرتے۔
آج دل اداس ہے، دلی اداس ہے، آج لاہور اداس ہے۔ محمودالحسن کا انتظار ختم ہوا۔ اب انوار ناصر، محمد سلیم الرحمٰن کی انگریزی نظمیں چھاپ دیں۔ شمیم صاحب دیکھنا چاہتے ہیں۔ صبا شمیم، سیمی اور غزل کا دلی شہر کا چاند دور دیس چلا گیا ہے۔