خیبر پختونخوا کے مقبول سیاحتی مقام چترال میں خواتین کی خودکشیوں اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے آگاہی پر مبنی مختصر دورانیے کی فلم ’دریا کے اس پار‘ نے تین عالمی ایوارڈ اپنے نام کر لیے۔
چترال میں بنی 30 منٹ دورانیے کی اس فلم نے نیویارک انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ’بہترین مختصر دورانیے کی فلم‘، بہترین ڈائریکٹر اور بہترین لیڈ ایکٹریس ( خبا عزیز ) کے تین ایوارڈ اپنے نام کیے۔
فلم کو نگہت اکبر شاہ نے پروڈیوس جبکہ شعیب سلطان نے ڈائرکٹ کیا ہے۔ شعیب سلطان نے بتایا کہ یہ ان کا فلم ڈائریکٹ کرنے کا پہلا تجربہ تھا اور اللہ کا شکر ہے عالمی سطح پر ان کی فلم کی اتنی پذیرائی ہوئی۔
’یہ ہمارے اور پاکستان کے لیے فخر کا مقام ہے کہ ایک پاکستانی فلم نے عالمی مقابلے میں تین ایوارڈز اپنے نام کیے۔‘
انھوں نے بتایا کہ میلے میں دنیا بھر سے 96 فلمیں مدمقابل تھیں جبکہ پاکستانی فلم نے بھارتی، میکسیکن اور امریکی فلموں کی کیٹیگری میں اپنی جگہ بنائی۔
شعیب نے بتایا کہ میلے میں مختلف خصوصیات پر مبنی 15 کیٹیگریز تھیں۔ ’فلم میں ہم نے چترال میں خود کشیوں کے علاوہ نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کو فوکس کیا ہے۔‘
یہ فلم مرکزی کردار گل زرین نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جس کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے دکھایا گیا ہے۔
گل زرین مختلف مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے شدید ذہنی پریشانیوں میں گھر جاتی ہے لیکن لوگ اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔
ایسے میں معاشرتی روایات اور رویے گل زرین کو اس حد تک ذہنی پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ ایک دن وہ خودکشی پر مجبور ہوجاتی ہے۔
فلم ڈائریکٹر نے بتایا، ’ہم نے فلم میں معاشرے کے ان رویوں کی نشاندہی کی ہے جو ذہنی پریشانی اور ذہنی دباؤ کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔‘
چترال میں خودکشیوں کا مسئلہ کیا ہے؟
جب بھی چترال کی بات کی جاتی ہے تو وہاں پر خودکشیوں بالخصوص خواتین میں اس رجحان کا ذکر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم میں بھی اسی مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔
چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک دور افتادہ ضلع ہے جہاں زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی یا زراعت سے وابستہ ہیں۔
دنیا بھر میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے، جس میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کا تناسب زیادہ ہے۔
تاہم ضلع چترال میں اس رجحان کے برعکس خواتین میں خودکشیوں کا تناسب مردوں سے زیادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چترال سمیت پورے پاکستان میں خودکشیوں کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ ڈیٹا موجود نہیں لیکن
خیبر میڈیکل کالج کے 2016 کے ایک مقالے میں محققین نے 2007 سے 2011 تک چترال کی چھ تحصیلوں میں خودکشیوں کے کیسز کا تجزیہ کیا تھا۔
اس مقالے کے اعدادو شمار کے مطابق ان چار سالوں میں 168 افراد نے خودکشی کی، جس میں 64 فیصد خواتین اور 38 فیصد مرد تھے۔
مقالے کے مطابق خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر کی عمریں 20 سے 24 سال کے درمیان تھیں۔
مقالے میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ 54 فیصد خود کشیوں کی وجہ گھریلو مسائل، 32 فیصد کی وجہ اعتماد کی کمی، 14 فیصد نفسیاتی مسائل، 11 فیصد امتحان میں ناکامی، آٹھ فیصد کو گھر سے سپورٹ نہ ملنا تھی۔
اس تحقیق کے مطابق خودکشی کرنے کے لیے 52 فیصد افراد نے دریا میں چھلانگ لگائی جبکہ باقیوں نے خود کو پھندہ ڈال کر خودکشی کی ۔