مدثر محمود نارو ایک صحافی، شاعر، ترقی پسند مصنف اور رضا کار ہیں جو 2018 سے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
جمعے کی رات ان کی اہلیہ صدف چغتائی اپنے ساڑھے تین سالہ بیٹے کو دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چل بسیں۔
ڈاکٹروں اور اہل خانہ کے مطابق صدف کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔
ان کے شوہر مدثر 2018 میں خیبر پختونخوا کے علاقے بالاکوٹ سے مبینہ طور پر لاپتہ ہوئے۔ وہ وہاں اپنی اہلیہ صدف اور چھ ماہ کے بیٹے کے ہمراہ سیر و سیاحت کی غرض سے گئے تھے۔
صدف، جو خود بھی ایک آرٹسٹ اور ایکٹیویسٹ تھیں، اپنے شوہر کی تلاش جاری رکھے ہوئے تھیں۔ انہوں نے ہر پلیٹ فارم پر ان کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائی۔
ہفتے کی صبح ان کی لاش اپنے کمرے میں پائی گئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ رات کو ہی انتقال کر چکی تھیں اور موت کی وجہ دل کا دورہ تھا۔
ان کی موت کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے خیال ظاہر کیا کہ ان کی موت کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹویٹ پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مدثر کو بازیاب کروانے کے ساتھ ساتھ تحقیق کریں کہ صدف کی موت کن حالات میں ہوئی کیونکہ انہوں نے 20 مئی کو جبری گمشدگیوں کے کیس کی سماعت کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے کمشنر کے سامنے پیش ہونا تھا۔
HRCP mourns the loss of artist and activist Sadaf Chughtai, mother of a three-and-a-half-year-old son. That she spent the last three years struggling to find her husband, poet, filmmaker and journalist #MudassarNaru is a measure of the tragedy. @FindNaaruAlive pic.twitter.com/UvvjcRr1wu
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) May 8, 2021
صدف کو ہفتے کی رات سپرد خاک کر دیا گیا۔ مدثر کے بھائی مجاہد نارو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں ابھی ایسا لگ رہا ہے کہ صدف کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی۔
صدف کے بھائی ان کی لاش ہسپتال لے کر گئے اور وہاں جو ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں موت کی وجہ ہارٹ اٹیک لکھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کمیشن والے اس کیس کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ’ہمیں آن گراؤنڈ ایسی کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کا کام ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی منفی چیز سامنے لے آتے ہیں جو خاندان والوں کے لیے مزید تکلیف کا باعث بنتی ہے۔
مدثر کی گمشدگی کے حوالے سے مجاہد کا کہنا تھا کہ گذشتہ رات بھی انہیں ایک ادارے سے کال آئی جنہوں نے ان سے مدثر کی گمشدگی کی متعلقہ قانونی دستاویزات طلب کیں۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ رات ان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سے بات ہوئی تھی۔ ’اسلام آباد میں موجود ہمارے وکیل نے ہمیں بتایا ہے کہ شیریں مزاری اس کیس میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ایک احتجاج ہوا تھا، جس میں ان کی والدہ بھی گئیں تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم نے حکومت کو 13 لوگوں کی ایک فہرست فراہم کی تھی۔ اس وقت وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے بہت امید دلائی تھی۔
’اب ہمیں امید ہے کہ شاید عید تک مدثر بازیاب ہو کر واپس آ جائیں۔‘
انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے اور حقوق خلق تحریک کے رکن عمار علی جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صدف تین سال سے اپنے شوہر کی بازیابی کے لیے بہادری سے لڑتی رہیں لیکن انہیں پر پلیٹ فارم پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
’اب ان کا ساڑھے تین سال کا بچہ اور بوڑھے والد اکیلے رہ گئے ہیں، کم از کم اب تو مدثر کو بازیاب کروانا چاہیے۔‘
عمار علی جان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں وہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کچھ مظاہروں کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ اس مسئلے کو پھر سے اٹھایا جاسکے۔