آج ایک مشکل موضوع زیرِ بحث ہے۔ خودکشی۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012 میں تقریباً 13 ہزار پاکستانیوں نے خود کشی کی تھی۔ 2016 میں 5500 افراد کے خودکشی کرنے کی رپورٹ سامنے آئی تھی۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
خود کشی ایک سنجیدہ موضوع ہے لیکن ہمارے ہاں دیگر موضوعات کی طرح اسے بھی مذاق میں اڑا دیا جاتا ہے۔ مجھے اس کا احساس چند دن پہلے ایک پاکستانی ڈراما دیکھتے ہوئے ہوا۔ یہ ڈراما ایک نجی چینل پر یکم رمضان سے نشر ہو رہا ہے۔ ہر سال رمضان میں کامیڈی کے نام پر کچھ ڈرامے نشر ہوتے ہیں جن کا ظاہری مقصد عوام کو رمضان میں ہلکی پھلکی تفریح فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس ڈرامے کو بھی اسی مقصد سے نشر کیا جا رہا ہے۔
کہانی وہی روایتی، دو سوکنیں، شوہر کب کا وفات پا چکا پر ان کی آپسی چپقلش اب تک باقی ہے۔ ان کی رہائش بالکل ساتھ ساتھ ہے۔ دونوں صاحبِ اولاد ہیں اور آگے سے ان کی بھی اولادیں موجود ہیں۔ دونوں خاندان آپس میں ’کبھی خوشی کبھی غم‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ملتے جلتے بھی رہتے ہیں۔
ویسے تو اس ڈرامے میں اور بھی مسائل ہیں لیکن چند دن پہلے کی قسط میں جس طرح خودکشی کو کامیڈی کے لیے استعمال کیا گیا، وہ افسوس ناک ہے۔ اس قسط میں تین مختلف کرداروں کو خودکشی کرتے یا اس کی دھمکی دیتے ہوئے دکھایا گیا۔ ڈرامے کے دو کردار آپس میں محبت کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے خاندان آپسی چپقلش کی وجہ سے دونوں کا رشتہ الگ الگ جگہ کر رہے ہیں۔
کامیڈی کے نام پر بننے والی فضولیات کا عموماً یہی گھسا پٹا پلاٹ ہوتا ہے۔ اس ڈرامے کا بھی یہی پلاٹ ہے۔ ایک ایک کر کے دونوں گھروں کو اس محبت کا پتہ چل رہا ہے۔ ابھی نہ نہ ہو رہی ہے، چاند رات پر اچانک ہاں ہو جائے گی اور ہلکی پھلکی کامیڈی کا ایک خوشگوار سا اینڈ ناظرین کو دیکھنے کو مل جائے گا۔
میں جس قسط کی بات کر رہی ہوں، اس میں پہلے ایک کردار کو خودکشی کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا اور اس کے بعد دو کرداروں کو خودکشی کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دکھایا گیا۔ ایک کردار نے دھمکی دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ وہ اپنی خودکشی کی کوشش کو فیس بک کے ذریعے لائیو براڈکاسٹ کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈراما نگار نے ایک ہی قسط میں تین بار خودکشی کی بات کر کے اپنی طرف سے عوام کو جو کامیڈی کا تحفہ پیش کیا ہے، اس پر قانونی کارروائی ہونی چاہیے، پر کون کرے گا؟ پیمرا تو خاموش بیٹھا ہے۔ ڈراما نگار، ہدایت کار یا پیش کار معافی ہی مانگ لیں پر ان سے معافی کا مطالبہ کون کر رہا ہے؟ جب تک دو چار ”انفلوئنسرز“ اس پر ٹویٹ نہیں کریں گے تب تک اس پر بات نہیں ہوگی۔
سونے پر سہاگہ، اس ڈرامے میں کئی ایسے اداکار کام کر رہے ہیں جو سوشل میڈیا پر اپنی بھاری بھر کم آرا کی وجہ سے کافی پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ عورتوں کے حقوق کی حمائیت میں لکھتے ہیں، اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، جنسی زیادتی کے واقعات کے خلاف بولتے ہیں لیکن اپنی پروفیشنل زندگی میں جو پراجیکٹس لیتے ہیں، ان میں ہونے والی کسی بھی غلط بات پر نہیں بولتے۔ آج کل ایکٹویزم کا کچھ ایسا ہی حال ہے۔ کہنے کو کچھ اور کرنے کو کچھ۔
ہمارے اردگرد ایسے بہت سے لوگ ہیں جو خودکشی کا رجحان رکھتے ہیں۔ اگر انہیں ٹی وی پر ایسا مواد کامیڈی کے نام پر دیکھنے کو ملے گا تو اس کا ان کی ذہنی صحت پر کیا اثر ہوگا؟
کچھ سال پہلے کی بات ہے، میرے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر دو ٹرولز نے حملہ کر دیا تھا۔ جانے انہیں مجھ سے کیا بیر تھا۔ میں کچھ بھی پوسٹ کرتی وہ اس کے جواب میں مجھے خودکشی کے طریقے بتانا شروع ہو جاتے تھے۔ دونوں آپس میں دوست تھے۔ جیسے ہی میں ٹویٹ کرتی، ایک دوست دوسرے کو ٹیگ کر کے بلا لیتا۔ پھر دونوں آپس میں بات کرنے لگتے کہ میرے لیے اپنی جان لینے کا کون سا طریقہ زیادہ مناسب رہے گا۔
یہ ایک خوفناک تجربہ تھا۔ میں نے فوراً دونوں اکائونٹس بلاک کیے اور اس کے بعد ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل میں ان کےخلاف درخواست بھی جمع کروائی۔ وہ الگ بات کہ اس درخواست پر آج تک اس عمل نہیں ہو سکا۔ اس کا بیان پھر کبھی سہی۔
خودکشی ایک سنجیدہ بلکہ سنگین موضوع ہے۔ اسے کامیڈی ڈراموں کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ خودکشی پر کامیڈی کرنا اور اسے کامیڈی ڈراموں کا حصہ بنانا بیمار ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر کسی کو اس میں مزاح نطر آتا ہے تو اسے اپنی ذہنی صحت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ خود کشی جیسے اہم موضوع پر کامیڈی کی جگہ سنجیدہ گفتگو ہونی چاہیے جس کا مقصد ایسے لوگوں کی مدد کرنا ہو جو کسی وجہ یا بغیر کسی وجہ کے خودکشی بارے خیالات کا شکار ہوں۔
انہیں بتایا جائے کہ ان خیالات کا علاج ان پر عمل کرنا نہیں بلکہ انہیں کسی ماہرِ نفسیات کی مدد سے حل کرنا ہے۔ خودکشی کے حوالے سے ہمارا کردار بس اتنا ہی ہونا چاہیے۔