اوچ شریف کی پانچ سو سالہ قدیم لائبریری

سابق ریاست بہاول پور کے نجی کتب خانوں میں اوچ شریف کا گیلانی کتب خانہ اپنی قدامت، مخطوطات اور نایاب کتب کے حوالے سے مسلمہ حیثیت کا حامل ہے۔

شمس محل کی عمارت جس میں گیلانی کتب خانہ قائم ہے (نعیم احمد ناز)

550 قبل از مسیح میں آباد ہونے والا اوچ شہر اپنی قدامت، امارت اور روحانیت کے باعث ہمیشہ سے ہی فاتحین اور علم و فضل کی بڑی شخصیات کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے، اپنی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر ہر دور میں علم و ادب کے گیانی، سادھو اور بعد از اسلام اولیائے کرام نے اس شہر کا رخ کیا۔

حضرت سید صفی الدین گاذرونی وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں وارد ہوئے اور اوچ میں رہائش اختیار فرما کر محض 17 سال کی عمر میں انہوں نے برصغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی ’جامعہ فیروزیہ‘ کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر میں اس وقت اسلامی تعلیم کے فروغ و ترویج کا فرض انجام دیا جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لیے پوری طرح سازگار بھی نہیں ہوئی تھی۔

سلطان ناصر الدین قباچہ کے عہد (607 ہجری تا 625 ہجری) میں جب اوچ کو سلطنت کے دارالحکومت کا درجہ ملا تو اس جامعہ کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ مشہور ایرانی مورخ، قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے جلیل القدر عالم جامعہ فیروزیہ کے صدر مدرس تھے۔ اس مدرسے میں بیک وقت اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے، التمش نے اوچ پر حملہ کیا اور اس مشہور زمانہ یونیورسٹی سمیت کئی مدرسوں اور کتب خانوں کو تباہ کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نویں صدی ہجری میں برصغیر کے عظیم صوفی بزرگ حضرت غوث بندگی رحمتہ اللہ علیہ کے عہد میں گیلانی کتب خانہ کی بنیاد رکھ کر اوچ شریف کی گم گشتہ تہذیب و عظمت اور علمی میراث کی تجدید و جستجو کے لیے سعی کی گئی، سابق ریاست بہاول پور کے نجی کتب خانوں میں اوچ شریف کا گیلانی کتب خانہ اپنی قدامت، مخطوطات اور نایاب کتب کے حوالے سے مسلمہ حیثیت کا حامل رہا ہے۔

1214  ہجری میں اس عظیم کتب خانے کے بہت سے علمی خزانے کو محفوظ نہ رکھا جا سکا تاہم درگاہ قادریہ غوثیہ عالیہ کے اس وقت کے سجادہ نشین مخدوم حامد محمد شمس الدین سید سادس گیلانی (1250 تا 1303 ہجری بمطابق 1834 تا 1886) نے اس کتب خانے کی ازسر نو تزئین و آرائش کی۔

مخدوم حامد محمد شمس الدین سادس گیلانی اپنے دور کے ممتاز عالم، فاضل، شاعر اور محقق تھے، جن کو تقریباً 30 علوم پر دسترس حاصل تھی، آپ اردو، فارسی اور سرائیکی زبان کے صاحب دیوان شاعر اور غالب، ذوق اور ناسخ کے ہم عصر تھے، انہوں نے گیلانی کتب خانہ پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اپنے دور کے بہترین اور اپنے فن میں ماہر کاتبین کو بطور ملازم رکھ کر کئی نادر و نایاب کتابوں اور اپنے شعری کلام کی کتابت کروائی۔

ریاست بہاول پور کے ممتاز محقق، ادیب اور شاعر سید مسعود حسن شہاب دہلوی نے اوچ شریف کی گیلانی لائبریری میں نایاب کتب اور قلمی مخطوطات کی شکل میں موجود علمی خزانے کو پچاس کی دہائی میں پہلی بار ”مخطوطات گیلانی لائبریری اوچ“ کے نام سے کتابی شکل میں اجاگر کیا، 1959ء میں شائع ہونے والی مذکورہ کتاب کے پہلے ایڈیشن کے مطابق گیلانی کتب خانہ میں اہم عربی اور فارسی قلمی و مطبوعہ نسخوں کی تعداد 390 ہے، جبکہ اردو زبان میں مختلف موضوعات پر بھی کتابوں کی ایک کثیر تعداد گیلانی کتب خانہ میں موجود ہے۔

مخدوم حامد محمد شمس الدین سادس گیلانی کے پرپوتے، درگاہ قادریہ غوثیہ عالیہ اوچ شریف کے موجودہ سجادہ نشین و صوبائی پارلیمانی سیکرٹری مخدوم سید افتخار حسن گیلانی کے مطابق اپنی ہیئت و قدامت  کے لحاظ سے گیلانی کتب خانہ کی اہمیت کسی خزانے کی سی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علم و ادب اور تحقیق و تالیف سے وابستہ اُردودان طبقے کے افادہ کے لیے اس کتب خانہ کو نئے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے کے لئے ریاض حسین بھٹہ کے زیر نگرانی مفتی تنویر مدنی نایاب مخطوطات کی اصلاح، حذف و سقط اور زیادتی و اضافے کے حل، ایک جیسے حروف کو ممتاز کرنے، حواشی لکھنے، علاماتِ ترقیم اور رموز واختصارات وغیرہ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور جلد ہی ان کی اشاعت ممکن بنا کر خطہ پاک اوچ کے قدیم علمی و ادبی سلسلے کی بہت سی پوشیدہ عظمتوں کی نقاب کشائی کی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ