صوبہ سندھ کے پارلیمانی سیکرٹری صحت قاسم سومرو نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں کرونا (کورونا) وائرس سے متاثر ہونے والے زیر علاج مریضوں میں ’بلیک فنگس‘ کے اب تک پانچ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ چند دنوں سے پڑوسی ملک بھارت میں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ افراد میں ’بلیک فنگس‘ کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
قاسم سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس حوالے سے بتایا کہ ’سندھ میں چند دنوں سے بلیک فنگس کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جن کی تعداد اب تک پانچ ہوچکی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ تمام کیس صوبائی دارالحکومت کراچی میں رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں چار کیسز ایک ہی نجی ہسپتال اور ایک کیس سندھ انفیکشیس ڈیزیز ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر نیپا، کراچی میں رپورٹ ہوا ہے۔‘
’یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے۔ کرونا وائرس سے پہلے بھی آئی سی یو میں زیر علاج مریضوں میں بلیک فنگس رپورٹ ہوتا تھا اور یہ کرونا کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ جن مریضوں کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے ان میں بلیک فنگس ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔‘
انہو ں نے کہا بلیک فنگس زیادہ تر وینٹی لیٹر پر جانے والے مریضوں میں دیکھا گیا ہے جیسا کہ بھارت میں بھی ہوا۔
قاسم سومرو کے مطابق بلیک فنگس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی شرح اموات 50 فیصد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہمارے پاس بھارت جیسی صورتحال نہیں۔ چند کیس ضرور رپورٹ ہوئے جو کہ کرونا سے پہلے بھی مریضوں میں ایسے کیسز رپورٹ ہوتے رہتے تھے۔ یہ کوئی وبائی بیماری نہیں جو ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگے۔‘
بھارت میں کووڈ 19 کی دوسری لہر کے دوران جہاں کرونا سے متاثر مریضوں کی بڑی تعداد رپورٹ ہونے کے بعد ہسپتالوں سے آکسیجن کی کمی کی خبریں سامنے آئیں وہیں اب بلیک فنگس یا میوکور مائیکوسز کے کیسز کی خبریں بھی آرہی ہیں، جن کے مطابق کرونا سے متاثر مریضوں کی صحتیابی کے 10 سے 15 دن بعد ان میں بلیک فنگس کے کیس سامنے آرہے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق دسمبر سے فروری کے درمیاں پانچ بھارتی شہروں ممبئی، حیدرآباد دکن، دلی، پونے اور بینگلور میں بلیک فنگس کے 58 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ دو ماہ میں ممبئی کے ایک انتہائی مصروف ہسپتال میں 24 کیسز سامنے آئے ہیں۔
ہسپتال انتظامیہ کے مطابق گذشتہ سال صرف دو کیس رپورٹ ہوئے تھے۔
بلیک فنگس کیا ہے اور کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟
میڈیکل مائیکرو بائیولوجی اور انفیکشیس ڈیزیز سوسائٹی پاکستان (ایم ایم آئی ڈی ایس پی) کی سیکرٹری جنرل اور شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور کی میڈیکل مائیکروبائیولوجسٹ ڈاکٹر سمیہ نظام الدین کے مطابق بلیک فنگس کو تیکنیکی زبان میں میوکورمائیکوسز کہا جاتا ہے اور یہ ایک خطرناک فنگل انفیکشن ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سمیہ نظام الدین نے بتایا کہ ’یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے، جیسے وائرس اور بیکٹیریا ہوتے ہیں، ایسے فنگس ہمیشہ سے ہوتے ہیں۔ ‘
ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ پاکستان میں بھارت جیسی صورتحال نہیں ہے۔ تاہم ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’بدقسمتی سے ہمارے پاس انفیکشن سے متاثر ہونے والے مریضوں کی گنتی کا کوئی نظام نہیں ہے، اس لیے ہمیں پتہ نہیں کہ ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے۔‘
ڈاکٹر سمیہ نظام الدین کے مطابق: ’بلیک فنگس اگر انسانی اعضا کو لگ جائے تو اس عضو کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے، جیسے انسانی پھیپھڑے لچکدار ہوتے ہیں اور سانس لینے کے ساتھ پھیلتے اور سکڑتے ہیں، بلیک فنگس لگنے کی صورت میں پھیپھڑوں کی لچک ختم ہوجاتی ہے، جو انسان کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔‘
میڈیکل مائیکروبائیولوجسٹ، امیونولوجسٹ اور وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی صوابی ڈاکٹر شاہانہ عروج کے مطابق بلیک فنگس یا میوکورمائیکوسز انتہائی خطرناک انفیکشن ہے جس سے متاثرہ مریض کے ناک، آنکھ اور پھیپھڑوں کو شدید متاثر کرسکتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں یا کمزور مدافعتی نظام والے افراد کے لیے یہ انفیکشن انتہائی مہلک ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر شاہانہ عروج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلیک فنگس خاص طور پر کھیت کی مٹی، پودوں، نامیاتی کھاد، گلے سڑے پھلوں اور سبزیوں میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے کسانوں میں آنکھوں کے امراض عام ہوتے ہیں اور کئی کسانوں کی سیاہ پھپھوندی کی وجہ سے بینائی بھی چلی جاتی ہے۔‘
’فطرت میں سیاہ پھپپوندی ہر جگہ پائی جاتی ہے، یہ انتہائی چھوٹے چھوٹے سپور یا بیجانو پر مشتمل ہوتی ہے جو ہوا میں اڑتے رہتے ہیں اور ایک عام صحتمند انسان کے ناک میں بھی چلے جاتے ہیں، مگر انسانی ناک میں موجود چھوٹے چھوٹے بالوں کے باعث یہ اندر نہیں جاسکتے، مگر جب انسان کی قوت مدافعت کم ہو تو یہ سانس کے ذریعے انسان کے پھیپھڑوں، ناک یا آنکھوں کو متاثر کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر شاہانہ عروج کے مطابق کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں میں بلغم بھر جانے کے ساتھ سوج جاتے ہیں اور ان میں درد بھی رہتا ہے تو اس کے علاج کے لیے مریض کو سٹیرائڈز کے پانچ سے چھ ڈوز دیے جاتے ہیں جو انسانی قوت مدافعت کو بہت ہی کم کر دیتے ہیں۔ اس لیے سیاہ پھپپوندی کے حملے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
’اگر کرونا سے متاثر مریض کو بلیک فنگس لگ جائے تو انہیں گھر کے بجائے ہسپتال میں رکھنا چاہیے اور انہیں دیگر لوگوں، پودوں، مٹی، اور گلے سڑے سبزیوں اور پھلوں کے پاس نہیں جانا چاہیے۔‘