32 سالہ سابق بیوٹی کوئین ہٹر ٹیٹ ٹیٹ کا کہنا ہے کہ وہ جنگل میں ہتھیاروں کی تربیت حاصل کر رہی ہیں اور سب کچھ ترک کرنے کے لیے تیار ہیں۔
میانمار کی ایک سابق بیوٹی کوئین نے مبینہ طور پر یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کرنے والی فوجی جنتا کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔ اس فوجی بغاوت کے نتیجے میں جمہوریت کے حامی سینکڑوں مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
32 سالہ ہتر ٹیٹ ٹیٹ ایک باغی گروپ میں شامل ہو گئیں اور ایک رائفل کے ساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کر رہی ہیں۔ انہوں نے 2013 میں تھائی لینڈ میں 60 دیگر شرکا کے ساتھ پہلے مس گرینڈ انٹرنیشنل خوبصورتی مقابلے میں حصہ لیا تھا۔
اپنے فیس بک پیج پر ٹیٹ ٹیٹ نے لکھا: ’اب وقت آگیا ہے کہ جواب میں لڑا جائے۔ چاہے آپ کے پاس کوئی ہتھیار ہو، قلم ہو، کی بورڈ ہو یا جمہوریت نواز تحریک کو رقم عطیہ کرنا ہو، انقلاب کی کامیابی کے لیے ہر ایک کو اپنا کام کرنا ہوگا۔‘
سابق بیوٹی کوئین سے جمناسٹک انسٹرکٹر نے سیاہ جنگی لباس اور رائفل کے ساتھ اپنی ایک تصویر پوسٹ کی۔ ’میں جتنا ہو سکے لڑوں گی۔ میں سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں تک کہ میں اپنی جان دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔‘
11 مئی کو ملک میں فوجی جنتا کی بغاوت کے بعد 100 واں دن منایا گیا۔ رنگون کی سڑکوں اور ملک بھر میں جمہوریت کی واپسی کے مطالبے پر احتجاج جاری ہے۔ میانمار یکم فروری سے سیاسی تنازعات کا شکار ہے جب فوجی جنتا نے سویلین رہنما آنگ سان سوچی کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیوٹی کوئین مقابلے میں حصہ لینے والی ایک اور امیدوار ہان لی بھی میانمار میں فوجی قیادت پر تنقید بھی کر چکی ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے کہا: ’میانمار میں فوج کی بندوقوں سے بہت سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ براہ مہربانی ہمیں بچا لیں.‘ اپنے فیس بک پیج پر انہوں نے لکھا: ’ہمارے میانمار کے لوگ جمہوریت کے لیے لڑنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ میانمار کے نمائندے کی حیثیت سے میں مس گرینڈ نٹرنیشنل کے سٹیج پر جنگ اور تشدد کو روکنے کے پیغام کے ساتھ چلوں گی۔‘
اقوام متحدہ نیوز میں بتایا گیا ہے کہ ’یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک کم از کم 782 افراد ہلاک ہو چکے ہیں کیونکہ سکیورٹی فورسز نے مظاہروں کو دبانے کے لیے غیر ضروری، غیر متناسب اور مہلک طاقت کا استعمال کیا تھا۔‘
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے ترجمان روپرٹ کولویل نے میڈیا کو بتایا: ’فوجی حکام اقتدار پر اپنی گرفت مستحکم کرنے کے لیے مخالفین کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن میں کمی کا کوئی اشارہ نہیں دے رہے ہیں۔‘
The revolution is not an apple that falls when it is ripe. You have to make it fall. (Che Guevara)
— Htar Htet Htet (@HtarHtetHtet2) May 11, 2021
We must Win pic.twitter.com/iHEDhF314p
انہوں نے مزید کہا: ’اگرچہ دنیا کی زیادہ تر توجہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے پرامن مظاہرین اور راہگیروں کی تعداد پر رہی ہے لیکن حکام میانمار کے عوام کے خلاف انسانی حقوق کی دیگر شدید خلاف ورزیاں کرتے رہتے ہیں۔‘
ٹیٹ ٹیٹ نے ٹوئٹر پر چی گویرا کے حوالے سے کہا: ’انقلاب کوئی سیب نہیں ہے جو پکنے پر گرتا ہے۔ آپ کو اسے گرانا ہوگا۔‘ انہوں نے سیاہ لباس اور رائفل میں اپنی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے مزید کہا: ’ہمیں جیتنا چاہیے۔‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جنگل میں ہتھیاروں کی تربیت حاصل کر رہی ہیں، لیکن انہوں نے کوئی زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں۔
حالیہ مہینوں میں بہت سے باغی گروہوں نے فوج اور پولیس پر حملے تیز کر دیئے ہیں۔ جوابی کارروائی میں فوج فضائی حملوں کا سہارا لے رہی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
فوجی بغاوت کے بعد 100 ویں دن کے موقع پر بہت سی ریلیاں اور موم بتی بردار جلوس منعقد کیے گئے جن میں رنگون کا تجارتی مرکز، باگو کا مرکزی قصبہ، ایراودی دریا کا ڈیلٹا، جنوب میں ساگائنگ اور مون ریاست کا مرکزی علاقہ شامل ہیں۔
© The Independent