عنایت کی عمر ڈھائی سال ہے اور اس کی والدہ جگویر کور کو یقین ہے کہ ان کی بیٹی بھارت میں ہونے والے کسان احتجاج کی سب سے کم عمر ترین شریک ہے۔
جگویر کا تعلق بھارتی پنجاب کے علاقے فرید کوٹ سے ہے اور وہ گذشتہ چند ہفتوں سے اپنی ننھی بیٹی کے ساتھ احتجاج میں شریک ہیں۔
جگویر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ جب رواں سال کے آغاز میں ٹریکٹر ریلی کا انعقاد ہوا تو وہ احتجاج میں شریک نہیں ہو سکیں کیونکہ وہ پیٹ سے تھیں۔ پھر جب ان کی بیٹی کی عمر ڈیڑھ ماہ ہو گئی تو وہ اسے لے کر تکری بارڈر پر آ گئیں۔
احتجاج میں شریک مظاہرین عارضی خیموں میں رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک خیمہ جگویر کا ہے جس میں وہ اپنی بیٹی اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ رہتی ہیں۔
عنایت کو بہلانے کے لیے احتجاجی کیمپ میں کچھ زیادہ تو نہیں مگر ایک چادر کا سہارا لیتے ہوئے عارضی جھولا ضرور بنایا گیا ہے۔
جگویر اپنی بیٹی کو اس جھولے میں ڈال کر بہلاتی ہیں تو اس کی مسکراہٹ قہقہے بن جاتے ہیں، جنہیں سن اور دیکھ کر ارد گرد رہنے والے تھکے ہارے مظاہرین بھی تازہ دم ہو جاتے ہیں۔
وہ اپنی بیٹی کو ایک بہادر انسان بنانا چاہتی ہیں۔ اس لیے کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اس احتجاج میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’عام طور پر لڑکیوں کو بہت گھٹے ہوئے ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اس احتجاج کا ماحول میری بیٹی کی نشو ونما کے لیے اچھا ہے، اس لیے میں اسے یہاں لائی ہوں۔‘
جگویر کا شمار ان ہزاروں کسان خاندانوں میں ہوتا ہے جو کھیتی باڑی تو کرتے ہیں مگر وہ کھیت کے مالکانہ حقوق سے محروم ہیں۔
بھارت میں کسان گذشتہ کئی ماہ سے حکومت کے نئے مگر متنازع زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ یہ قوانین فوراً ختم کیے جائیں۔ حکومت اور کسان نمائندوں کے درمیان اب تک مذاکرات کے کیے ادوار ہوئے مگر نتائج برآمد نہ ہو سکے۔
ایسے میں کسان بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے متعدد بارڈرز پر احتجاج دیے بیٹھے ہیں۔