مندر کی بجتی گھنٹیاں، مسجد میں اللہ اکبر کی اذان اور گردوارے سے آتی ہوئی جھنکار کی صدا ڈیرہ بگٹی کے نواب قلعے کے چاروں اطراف اس عمارت کی انفرادیت کو مزید چار چاند لگا دیتی تھی۔
یوں تو پاکستان کے ہر صوبے میں ہندو برادری آباد ہے لیکن نواب قلعے کے ہندوؤں کو پورے بلوچستان میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ جہاں ہم نے نواب یا سرداروں کے سخت رویوں کی داستانیں سنی ہیں وہاں اس قلعے میں آباد ہندوؤں کو وہ حیثیت حاصل تھی جو شاید ہی ڈیرہ بگٹی میں کسی اور بگٹی کو حاصل تھی۔
مری ہوں یا بگٹی قبائل کہا جاتا ہے کہ پانی پت کی تیسری جنگ کے دوران مرہٹوں کو شکست دینے میں افغانوں کے ساتھ بلوچ قبائل نے بھی حصہ لیا تھا۔ اس شکست کے بعد درانی سلطنت کے بانی احمد شاہ ابدالی جہاں بڑی تعداد میں مرہٹوں کو خدمت گار کے طور پر لے گئے وہاں بلوچ قبائل بھی انہیں اپنے ساتھ بلوچستان لے آئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں مرہٹہ سپاہی اور ان کے خاندان دائرہ اسلام میں شامل ہو گئے۔ ہندوستان سے آنے والے مرہٹوں کے علاوہ بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں راجن پور اور سندھ سے آنے والے ہندوؤں نے بھی کئی سو سال سے ڈیرہ بگٹی کو اپنے وطن کے طور پر قبول کیا۔
بلوچستان میں رہنے والے ہندوؤں کو یہاں کے قدیم باشندوں میں شمار کیا جانا حقیقی طور پر درست ہے۔ ہم اس میں قلات کے تاریخی شہر کا ذکر کریں یا لسبیلہ میں ہنگلاج ماتا مندر یا پھر پشتون بیلٹ کے اس حصے کا جس کا نام مشہور ہندو پھلوں کے تاجر چمن داس کے نام سے آج بھی منسوب ہے۔
ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے ہندو بکال (فارسی سے اخذ کیا گیا لفظ بکال جس کے معنی دکاندار کے ہیں) خاص حیثیت حاصل تھی۔
نواب اکبر خان بگٹی جہاں اپنی جداگانہ نوابیت کی وجہ سے مشہور تھے وہاں ڈیرہ بگٹی کے ہندو بگٹیوں کو نواب صاحب کی ’آنکھوں کا تارا‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
اس قلعے کے اندرونی گیٹ سے لے کر نواب اکبر خان بگٹی کی کچہری، مہمان خانے، باورچی خانے تک یا پھر سکیورٹی چیک پوسٹ سے لے کر نواب بگٹی کی لائبریری تک تمام انتظامات خاص طور پر ہندوؤں کے حوالے تھے۔ 17 مارچ 2005 گوردوارے پر حملے کے نتیجے میں دو مندر زمین ہوس ہوئے، مسجد کو بھی نقصان پہنچا اور ڈیرہ بگٹی کے اس قلعہ نواب میں رہنے والا ہر ہندو نہ صرف دربدر ہوا بلکہ آج بھی وہ خود کو غیرمحفوظ تصور کرتا ہے۔
1۔ ڈیرہ بگٹی کے آئی ڈیز پیز
ہندوبرادری نے نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کے بعد ڈیرہ بگٹی میں معاشی طور پر ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے۔ جہاں اس قلعہ کی تباہی کے دوران ان کے مقدس مقامات کھنڈرات کی صورت اختیار کرگئے وہاں اسی قلعے میں بسنے والے تقریباً ڈھائی سو سے زائد مکان تباہ ہوگئے۔
ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن کے مطابق 2006 میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد ڈیرہ بگٹی سے نقل مکانی کر کے کوئٹہ، کشمور، جعفرآباد، سبی، سکھر، جیکب آباد اورسندھ کے دیگر شہروں میں جانے پر مجبور ہوگئی۔ یوں تو ان آئی ڈی پیز میں ڈیرہ بگٹی کے ہر مذہب کے لوگ شامل تھے لیکن نواب قلعے ڈیرہ بگٹی کا ایک بھی ہندو اس قلعے میں باقی نہیں رہا۔
متعدد ہندو اپنے خاندانوں کو دوسرے شہروں میں منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے اور باقی نواب اکبر خان بگٹی کی حمایت کے لیے ان کے ساتھ کھڑے رہے اسی طرح جس طرح ان کے باپ دادا نے400 سال پہلے اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے سپہ سالاری میں پیش قدم رہے۔
کراچی میں مقیم ایک ہندو تاجر نے اس واقعہ کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارا بچپن اور جوانی اسی قلعے میں گزرا۔ ہم نے اگر عزم وفاداری نواب بگٹی کے سامنے پیش کی تو اس کی سب سے اہم وجہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ ہمارے لیے ایک باپ کا کردار ادا کیا۔ ہم نے ڈیرہ بگٹی میں نواب صاحب کے دور میں کبھی خود کو اقلیت تصور نہیں کیا۔ ہمارے حقوق بالکل ویسے ہی ادا کیے جاتے جیسے کسی مسلمان بگٹی کی شنوائی ہوتی تھی۔‘
اس تاجر نے مزید بتایا کہ اس قلعے میں رہنے والے ان کے دادا انہیں بتایا کرتے تھے کہ 1947 کے بعد ہندو بگٹیوں کا ایک میڑہ (وفد) نواب بگٹی کے پاس آیا جس میں ڈیرہ بگٹی کے علاوہ دیگر قبائل کے ہندو بھی شامل تھے اور ان سے پوچھا کہ اب ان کے لیے کیا حکم ہے تو نواب صاحب نے جواب دیا کہ ’میں تم لوگوں کو خود سے جدا کیسے کروں کیونکہ بلوچستان کا ہندو بھی مجھے اتنا ہی عزیز ہے جیسے میرے سینے میں موجود بال، کوئی انہیں نوچے گا تو مجھے شدید تکلیف ہوگی۔‘
ہندو پنچایت کمیٹی کے سینیئر نائب صدر اور بی این پی (عوامی) کے اقلیتی رہنما درشن داس بگٹی کے مطابق آئی ڈی پیز میں سے بیشتر افراد واپس نہیں آئے کیونکہ مقامی علاقوں میں آباد کاری سے متعلق کسی نے بھی مناسب اقدامات نہیں اٹھائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یوں تو مختلف ادوار میں حکومتوں نے آئی ڈی پیز یا اقلیتوں کے لیے امداد کی منظوری دی لیکن ہم فائلوں کو لیے ہوم آفیس کے چکر کاٹتے رہتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کو دوبارہ آبادکاری کے دلاسے دیتے رہتے ہیں۔ ایک دور تھا جب اسی کمیونٹی سے تین رکن صوبائی اسمبلی ارجن داس بگٹی، سنت سنگھ بگٹی اور کملا دیوی ہوا کرتے تھے۔ ارجن داس بگٹی ڈپٹی سپیکر بھی رہے لیکن اب ہماراکوئی پرسان حال نہیں ہے۔‘
2۔ہندو بگٹیوں کے موجودہ حالات
سوئی کے تاجر یشپال بگٹی کے مطابق نقل مکانی کی وجہ سے ان کا کاروبار تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ ’جس ہندو بازار میں ہمارا راج تھا اور ہماری کمیونٹی کے لوگوں کی کئی دکانیں تھیں اب صرف چند رہ گئی ہیں۔ جہاں ہمارا تاجر کئی ملازموں کو نوکریاں دیا کرتا تھا آج خود کہیں نوکری کر رہا ہے۔ جہاں آئی ڈی پیز کے لیے اپنا بسا بسایا کاروبار منتقل کرنا اور رہائش کا بندوبست کرنا ایک سردرد تھا وہاں دوبارہ آبادکاری کے لیے اپنی عبادت گاہوں کو اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ تعمیر کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔‘
کشمور میں رہنے والے ایک ہندو بگٹی نے بتایا کہ نقل مکانی کے بعد کافی عرصے تک وہ سندھ کے مندروں میں اپنے خاندان کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہے۔
2013 کے الیکشن سے پہلے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے نواب صاحب کا چشمہ دکھاتے ہوئے یہ تو اعلان کیا کہ آپ اقلیتی برادری سمیت سارے بگٹی اس قلعے کو دوبارہ آباد کریں مگر یہ نہیں بتایا کہ ایک سرپرست اور امداد کے بغیر یہ سب کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
مقامی صحافی امام بگٹی کے مطابق یوں تو ڈیرہ بگٹی ہو یا سوئی عوام کے لیے مسائل کا ایک انبار لگا ہوا ہے لیکن معاشی طور پر ہندوؤں نے یہاں کی بہتری کے لیے اپنی مکمل شراکت داری دکھائی۔ امن وامان کے لیے معاشی طور پر خوشحال ڈیرہ بگٹی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر حکومت وقت اپنے اعلان کردہ پیکجز پر توجہ دے اور عملی طور پر عام بگٹیوں کو اس کے ثمرات حاصل ہوں تو ہندو برادری کو دوبارہ یہاں آباد کر کے سوئی سمیت ڈیرہ بگٹی کی رونقیں مکمل طور پر بحال کی جاسکتی ہیں۔
2013 کے الیکشن ہوں یا 2018 کے ڈیرہ بگٹی کے صوبائی وزیر ہوں قومی اسمبلی کے ممبر یا پھر سینیٹر کرسی پر براجمان نوابزادہ بہرام ہوں یا شاہ زین بگٹی انتخابات سے پہلے، ہولی یا پھر دیوالی میں تصاویر کے لیے تو ضرور نظر آئے مگر آج تک ہندو اقلیتی برادری کے جائز حقوق دلوانے میں بظاہر ناکام رہے۔ پریس کانفرنس کرتے شاہ زین بگٹی خود کو ڈیرہ بگٹی کا آئی ڈی پیز کہلوانے والے آج قومی اسمبلی تک رسائی حاصل کر کے اپنے حقوق تو شاید حاصل کرچکے ہیں لیکن ڈیرہ بگٹی کا ہندو بگٹی ان سے اپنا جائز حق اقلیتی کوٹہ، سٹوڈنٹس کے لیے سکالرشپ، مکانات اور عبادت گاہوں کی تعمیر نو کا طالب ہے۔ ڈیرہ بگٹی کا ہندو اب سروے رپوٹوں اور کمیٹیوں سے تنگ آچکا ہے۔