کرونا نے ہماری زندگیوں پر تو اثر مرتب کیا ہی کیا ہے، موت جیسی اٹل حقیقت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے بھی باز نہیں آیا ظالم۔ فلم و موسیقی کا جہان ہو کہ علم و ادب کی دنیا، اس ستم ظریف کی چیرہ دستیوں سے کوئی جائے اماں نہیں۔
میری تمام سر گزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو۔ علامہ اقبال نے نجانے کس عالم میں یہ آفاقی مصرع کہا ہو گا۔ یہاں اس کا ذکر یوں بر محل ہے کہ انسان کے پاس اپنی تہذیبی یادداشت سے بڑا کوئی سرمایہ شاید ہی ہو۔ میں ہوں اس لیے کہ میں کسی کو یاد ہوں۔ اس لسٹ میں شامل افراد کے نام اور کام سے اختلاف ممکن ہے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ انہیں یاد رکھا جائے گا۔
- ڈاکٹر طارق عزیز (1954-2021)
1980 اور 90 کی دہائی کا زمانہ پی ٹی وی کے سنہرے دور کا شایان-شان اختتام ثابت ہوا۔ اس دوران دیواریں، سفر، جنگل، ناموس، سونا چاندی، اندھیرا اجالا جیسے یادگار ڈرامے پیش ہوئے۔ مگر شاید ہی کسی ڈرامے کو گیسٹ ہاؤس جیسی مقبولیت نصیب ہوئی ہو۔ اس مزاحیہ ڈرامے کا مرکزی کردار جان ریمبو ادا کرنے والے اداکار تو فلم انڈسٹری نے بھی سنجیدگی سے لیا۔
ڈاکٹر طارق عزیز نے معذوری کو اپنی طاقت بنا لیا اور کمزوری کا مذاق اڑانے والے معاشرے کو اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ ٹی وی اور میڈیا سے شناخت بنانے والے طارق عزیز ابلاغیات میں ڈاکٹریٹ کی سند رکھتے تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی، ایف سی کالج، سائنس کالج لاہور سمیت اداروں میں اعلی تدریسی اور انتظامی مناصب پر فائز رہے۔
- مشرف عالم ذوقی (1963-2021)
اپنی کل زندگی کا نصف مشرف عالم ذوقی نے اردو ادب کے لیے تج دیا۔ لگ بھگ 30 سال کی عملی ادبی زندگی میں ان کے چودہ ناول اور آٹھ افسانوی مجموعے شائع ہ چکے تھے۔ پاک و ہند کے اخباروں رسالوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر چھپنے والے سینکڑوں کالم، مضامین اس پر مستزاد ہیں۔
اس کے باوجود ذوقی کو انہی کے غالب معاصرین کے متاثرین میں شمار کیا جاتا ہے اور شاید ایسا غلط بھی نہیں۔ ان کا فکشن جونہی پڑھا جانے لگے وونہی بور کرنے لگتا ہے۔ ذوقی کے وسیع مطالعے اور عریض حافظے کی داد دینا بنتا ہے۔ پر وہ اپنے بیانات کو متضاد اور بیانیے کو خلط مبحث بنا کے رکھ دیں تو اس پر کوئی کیا کہے۔ یہی نا کہ بس جی کیا کریں خدا کو یہی منظور تھا!
- راحت اندوری (1950-2020)
انڈیا، برصغیر، دنیا، کائنات تک کے مشہور ترین مشاعرے بازوں میں سے ایک تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ ان کے سارے شعر سرے سے پیش گفتہ یا بے سر و پا ہوں۔ سرقہ تو ویسے بھی مشیرے بازوں کے لیے ماں کے دودھ کی طرح حلال ہے۔ راحت کو ان کے معاصر مشاعیر سے زیادہ قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان میں سے بعض خواتین و حضرات تو خود کو شاعر تک سمجھتے ہیں۔ راحت تو تھے بھی۔
دستور ہے کہ مشہور ہونے کے بعد مشاہیر وہ حرکتیں ترک کرنے پر تل جاتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ بام-عروج تک پہنچے تھے۔ راحت اندوری مرحوم بہر طور اس دھڑادھڑ دو نمبر کام میں سراسر ایک نمبر آئٹم تھے۔ مشاعرے میں کلام سناتے ہوئے ان کے ہاتھ اپنے کانوں پر ہوتے اور کان سامعین کی نبض پر۔ ان کے بعض شعر خود انہی کے نام سے مشہور ہیں۔ ’کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
- زاہد ڈار (1936-2021)
یہ تو آرام سے کہا جا سکتا بلکہ کہا جاتا رہا ہے کہ زاہد ڈار مجھے ہمیشہ ڈار سے بچھڑی کونج لگے۔ لیکن کیا ڈار سے بچھڑی کونج ہونا واقعی اتنا آرام دہ ہوتا ہو گا؟ جتنا شانت یہ البیلا شاعر تھا، جتنا انتھک یہ کتابی کیڑا تھا۔
شہرت سے بجا طور پہ بے نیاز اس مردِ خدا نے عمر-عزیز پاک ٹی ہاؤس سے نیرنگ آرٹ گیلری ہوتے ہوئے ریڈنگز بک شاپ تک سمٹی ہوئی بزم- دوستاں میں گزار دی۔ اور دوست بھی کیسے؟ انتظار حسین، ناصر کاظمی، صفدر میر، سلیم الرحمان، کشور ناہید، یوسف کامران۔۔۔۔
نصف صدی کے ادبی سفر میں انہوں نے مشکل سے یعنی آسانی سے یہی کوئی پچیس تیس سال لکھا ہو گا۔ اور وہ بھی کشمیری خوش خطی کے اضافی نمبر شامل کر کے۔ گنتی کی نظموں نے انہیں جتنے قاری عطا کیے وہ انگلیوں نہیں تو پوروں پر گنے جا سکتے تھے۔ بھری محفلوں میں ان کے جملے ازحد چنیدہ ہوتے اور ان کی چپ سراسر گھپ۔ بالکل ان کی شاعری کی طرح۔
- آصف فرخی (1959-2020)
ڈاکٹر اسلم فرخی اردو کے معروف انشا پرداز تھے۔ ان کے لائق فائق صاحبزادے نے کئی میدانوں میں طبع آزمائی فرمائی۔ ادھر دنیا آزاد نامی گرامی رسالے کی ادارت سے نام کمایا۔ ادھر انڈیا کے شہر جے پور کے ادبی میلے کی طرز پر کراچی لٹریری فیسٹیول شروع کرایا۔ اس کے بعد طرح مصرع پر گرہیں لگتی چلی گئیں، لاہور، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد۔۔۔
بلا کے ایونٹ مینیجر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مرحوم پڑھے لکھے مترجم اور خاصے عمدہ نثر نویس تھے۔ علاوہ ازاں، بعض گراں بہا کتب کی اشاعت کا کریڈٹ بھی ان کے ادارے شہرزاد کو جاتا یے۔ اپنے آخری ماہ و سال میں وہ جیسے روح فرسا مسائل کا شکار رہے۔ گمان ہے انہوں نے وائرس کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا ہو گا۔ وی آئی پی آر ویسے بھی ان پر ختم تھی۔
- شمیم حنفی (1939-2021)
مرحوم کی یاد میں لکھے جانے والے نوٹس اور مضامین تک یہ طے کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ آخر انہوں نے کیا کیا اور وہ کرنا کیا چاہتے تھے۔ خیر، اس طرح بھی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ حنفی صاحب جدید اردو نظم سے ڈرامے تک، تنقید سے تحقیق تک اپنی سعی فرماتے رہے جو کسی زمانے میں کی حوالے سے مشکور رہی ہو گی۔ ضرور رہی ہو گی۔
ایک دم پخت نقاد نے ان کے ڈراموں کو متعلقہ سماجی حوالوں سمیت سامنے لا کھڑا کیا تو مقابل میز پر براجمان استاد ان کو مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی سے بہتر مرحوم ثابت کرنے پر تل گئے۔ مجھے ان کے بارے میں انڈیا کے تصنیف حیدر اور سالم سلیم کی آرا زیادہ متوازن اور قابلِ فہم لگیں۔ اپنے شذروں میں احباب نے مرحوم کی تہذیبی شخصیت کا خوب احاطہ کیا۔ آگے اللہ مالک ہے۔
- محمد خالد (1950-2020)
ایسے بھاری نقادوں، بھرکم استادوں، ادبی میلوں کےنانوں، مشاعروں کے دادوں کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے بچارے محمد خالد جو خیر سے اختر بھی نہ تھے۔ مشاہیر کے اس با ہنگم جمگھٹے میں ایک دھان پان سے شاعر کا بھلا کیا کام۔ یا کیا پتا وہ اپنے نام کی لاج رکھ لیں۔ ان کا عدم ہی ان کی موجودگی کا جواز بن جائے۔
حالانکہ محمد خالد خود بھی استاد وغیرہ سبھی کچھ تھے۔ بلکہ استاد الاساتذہ۔ ایک زمانے میں ادبی انجمنوں، حلقوں وغیرہ میں ٹھیک ٹھاک فعال بھی رہے۔ اپنی نسل کی نمائندہ آوازوں میں بھی گنے گئے۔ تاہم ان کے گرد نظر انداز ہونے یا کیے جانے کا ایک ہالہ سا تھا۔ اس بیرنگیِ سیاست دوراں میں ان کے دشمن یا دوست یا دونوں پس و پیش رہے ہوں گے جو شریکِ سفر بھی تھے اور منزل بھی لے اڑے۔
- خالد طور (1946-2021)
ایک کے بعد دوسرا خالد۔ لو جناب، کر لئو گل! ویسے خالد کا مطلب ہمیشہ رہنے والا ہے۔ آپ کو پتہ ہی ہو گا اور نہ بھی ہو تو آپ یا کوئی بھی اب طور کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ ادبی جریدوں فنون اور اوراق کی تاریخی کشمکش میں طور کے فکشن کا تو سرمہ بن کے رہ گیا۔
رہی سہی کسر بعد میں طور نے خود پوری کر دی۔ جب تک اجمل کمال کے جریدے ’آج‘ اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ذریعے خالد طور کے فکشن کا احیا ممکن ہوتا، افسوس کہ طور تب تک ڈھے چکے تھے۔ ناول ’بالوں کا گچھا‘ مصنف کے اسی ذہنی گھن چکر کا شکار ہوا۔ پھر بھی وہ اردو کو ’کانی نکاح‘ جیسا شہکار دے گئے۔
- وحید الدین خان (1928-2021)
شاعروں ادیبوں کی اس فہرستِ مرگ میں ایک ثقہ عالم دین کا کیا کام؟ مگر خان صاحب کوئی روکھے سوکھے پھیکے ملا نہ تھے۔ علمی پایہ ایسا کہ پانچ زبانوں میں دو سو تصانیف یادگار چھوڑ گئے۔ فکری شفافیت ایسی کہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا موددی سے اختلاف کیا تو ’تعبیر کی غلطی‘ لکھ ڈالی جو شاید اسی باعث ان کی سب سے معروف اور متنازع کتاب ہے۔
سیاسی بصیرت ایسی کہ جب بابری مسجد کی شہادت پر ہر طرف گھیراو جلاو کا بازارگرم تھا ، خان صاحب نے عدم تشدد کی تبلیغ و اشاعت کی۔ مسلم گاندھی ہونے کے الزامات سہے مگر زور آور زہریلے میڈیا پر وہ حق گوئی صلح جوئی کی آواز بن کر ابھرے۔ تحریر سے تقریر، ادب سے زندگی تک ان کا اسلوب صوفیانہ اور عالمانہ، دانش مند اور ترقی پسند رہا۔ اور کچھ اسی آخری مذہب کی آخری امید بھی۔
- شمس الرحمٰن فاروقی (1935-2020)
فیس بک پر واقع اردو دنیا درجنوں اقبال فیض، بیسیوں منٹو بیدی ماہانہ کے حساب سے پروڈیوس کرتی ہے۔ جدھر نظر ڈالو کوئی جیینئس منہ اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ خرفروشی کے اس ہجوم سے نوری سالوں کے فاصلے پر۔۔۔۔ شمس الرحمٰن فاروقی ان گنے چنے افراد میں ہوں گے کہ جنہیں نابغہ نہ کہا جاے تو کیا کہا جائے۔
شعرِ شور انگیز سے ساحری، شاہی، صاحب قرانی تک، سوار اور دوسرے افسانوں سے لے کے کئی چاند تھے سر-آسماں تک۔ تنقید، تحقیق، ترجمہ، تخلیق، ادارت، لغت نویسی۔۔۔ کوئی خانہ نہیں جو فاروقی نے خالی چھوڑا ہو۔ کرونا نے یوں تو جس عامی کی بھی جان لی کسی نہ کسی کے لیے خاص الخاص رہا ہو گا۔ لیکن فاروقی کو تیرِ ستم سے گھائل کر کے تو ظالم نے ادبی دنیا پر واقعی شب خون مارا۔