کیوبا میں قائم امریکہ کے بدنام زمانہ گوانتانامو بے حراستی مرکز کے سب سے پرانے اور سب سے بوڑھے پاکستانی قیدی سیف اللہ پراچہ کو 17 مئی کو پرزنر ریویو بورڈ نے دو دیگر قیدیوں کے ہمراہ رہا کرنے کی منظوری دی تھی، مگر ان کی وکیل کا کہنا ہے کہ ان کی رہائی کا انحصار پاکستان امریکہ تعلقات پر ہے۔
پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ کو امریکی سی آئی اے نے جولائی 2003 میں القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں بنکاک ایئر پورٹ سے گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری سے کچھ عرصے قبل ان کے بڑے بیٹے عزیر پراچہ کو بھی نیویارک میں گرفتار کر لیا گیا تھا، جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔
ذیابیطس اور دل کے مرض میں مبتلا 73 سالہ سیف اللہ پراچہ ’بغیر کسی الزام‘ کے گذشتہ 16 سالوں سے گوانتانامو بے حراستی مرکز میں قید ہیں۔
تاہم اس بارے میں اب تک ابہام ہے کہ سیف اللہ پراچہ کب تک رہا ہو کر واپس اپنے اہلِ خانہ کے درمیان پہنچیں گے جو بےتابی سے ان کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے سیف اللہ پراچہ کی امریکی وکیل شلبی سلووین بینِس کا خصوصی انٹرویو کیا جس کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔ جب کہ آڈیو یہاں کلک کر سنی جا سکتی ہے
سیف اللہ کب تک رہا ہو کر پاکستان پہنچیں گے؟
سیف اللہ پراچہ کب تک رہا ہوں گے اس سے متعلق حکومت کی طرف سے کوئی مصدقہ معلومات موصول نہیں ہوئی ہے۔ ان کے کلئیرنس پیپر تاحال میڈیا میں شائع نہیں ہوئے ہیں، اس لیے میرے لیے ابھی تک یہ ابہام ہے۔ حکومتی کلئیرنس میں انہوں نے کیا کہا ہے، کیوں کہ میں نے ابھی تک وہ پیپر نے دیکھے ہیں اور نہ مجھے فون پر بتایا گیا ہے۔
مجھے صرف یہ بتایا گیا ہے کہ رویو بورڈ نے انہیں کلیئر کر دیا ہے اور ان کی منتقلی کا کہا ہے۔ یہ کیسے ہو گا، اس سب کا انحصار امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں پر ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی قیدیوں کو رہائی کے لیے کلیئر قرار دیا گیا تھا مگر وہ اپنے آبائی وطن نہیں جا سکے، کیوں کہ ان کے اپنے ملک کی جانب ان کی منتقلی کی درخواست وقت پر نہیں کی گئی کہ وہ اپنے قیدیوں کو واپس لینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ حکومت میں بھی ہوا۔ میرے خیال میں جو 30 دن نوٹس والی شرط ہے اس وجہ سے یہ ہوا۔
مجھے یاد ہے کہ مراکش کے شہری عبدالرشید ناصر نے ٹرمپ حکومت میں بغیر کسی جواز کے چار سال قید میں کاٹے کیوں کہ ان کے ملک کی حکومت انہیں واپس لینا نہیں چاہتی تھی۔ میں دعا کرتی ہوں کہ ایسا کچھ پراچہ کے ساتھ نہ ہوں۔ مجھے پاکستان حکومت اور وہاں کی قیادت پر یقین ہے کہ ان کی جانب سے ماضی میں بھی پراچہ کے وطن واپسی کے متعلق بیانات دیے تھے۔
پاکستان ایک ملک ہے اور اس کے ایک شہری کو امریکہ نے اغوا کرکے بغیر ٹرائل کے رکھا اور اب واپس کرنا چاہ رہے ہیں تو انہیں واپس لیا جائے۔
ان کی عمر 73 سال ہے اور زندگی کا کچھ حصہ اپنے خاندان کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان حکومت ان کی وطن واپسی کے لیے کھڑی رہے گی۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان کی وطن واپسی پر انہیں آزاد چھوڑا جائے گا۔‘
کیا سیف اللہ پراچہ کے گوانتاناموبے سے رہائی کا باقاعدہ کوئی سرکاری حکم نامہ جاری ہوا ہے؟
اس سوال کا جواب دینا کافی مشکل ہے کہ ان کی رہائی کا کوئی حکم نامہ جاری ہوا ہے۔ ایسے حکم نامے تو پہلے بھی جاری ہوتے رہتے ہیں، مگر کسی عدالت سے ایسا حکم نامہ شاذو نادر ہی جاری ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی عدالت کسی قیدی کی رہائی کا حکم نامہ جاری کرتی ہے تو ایسے شواہد بھی ہیں کہ فوج ان حکم ناموں کو نہیں مانتی۔ یہ ہمارے نظام کی پسماندگی ہے۔
اگر اس سوال کو تھوڑا سا تبدیل کر دیا جائے کہ کیا ان کی منتقلی کے متعلق کوئی فیصلہ ہوا ہے تو ایسی صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ ایسا حکم نامہ جاری ہوا ہے مگر میرے پاس اس حکم نامے کی کوئی کاپی نہیں ہے، کیوں کہ ایسا حکم نامہ تاحال شائع نہیں ہوا ہے۔
مگر پیر 17 مئی کی صبح کو ان (سیف اللہ پراچہ) کو ایک خط پڑھ کر سنایا گیا، یہ خط ایگزیکٹیو برانچ کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، جس میں ان (سیف اللہ پراچہ) کی پاکستان منتقلی کی تجویز دی گئی تھی۔ مجھے اب تک جو بتایا گیا ہے کہ سیف اللہ پراچہ کو منتقلی کے لیے ’کلئیر‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں میں قیدی کی اپنے ملک منتقلی اس بات پر منحصر ہے کہ میزبان ملک کے ساتھ امریکی حکومت کے تعلقات اچھے ہوں اور اس ملک کی جانب سے یہ تجویر دی جائے کہ قیدی کو ان کے آبائی ملک منتقل کر دیا جائے، وطن بھیج دیا جائے نہ کہ دوبارہ امریکہ میں قید رکھا جائے۔
ایک اور بھی قانونی شرط ہے، چونکہ یہ آرڈر نیشنل ڈیفنس آتھرائزیشن ایکٹ (این ڈی اے اے) کے تحت ہوا ہے، جو ایک ملٹری بل ہے، جس کے تحت گوانتاناموبے سے کسی قیدی کی جیل کے باہر منتقلی سے 30 دن پہلے کانگریس کو نوٹس دینا ضروری ہے، جو پچھلے دو دہائیوں سے رائج ہے۔‘
کیا رہائی کا کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے؟
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ہاں ان کی رہائی کے جاری کیا جانے والا سرکاری نوٹیفکیشن موجود ہے، لیکن اس پر آگے کی تاریخ درج ہے۔ یہ ان کی رہائی کے بارے میں جس کا حکم دیا جا چکا ہے۔ یہ لازمی طور پر عدالت کی جانب سے مقدمہ بند کرنے کا حکم ہے اس لیے سیف اللہ پراچہ کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمے میں جو بھی بات ہو گی اس کے مطابق پراچہ کو اس تاریخ پر منتقل کیا جانا ہے اور یہ ان کی منتقلی کا واحد ریکارڈ ہے جو عدالتی ہے۔
وہ امر جس کی بنیاد پر ان کی رہائی کے بارے میں پیشگی بتایا جا سکے گا اس کا انحصار جو بائیڈن انتظامیہ پر ہے۔ اوباما دور میں ایسے حالات پیدا ہوئے تھے جن میں ہم اس قابل ہو گئے تھے کہ ہم خاندان کے لوگوں کو سیف اللہ پراچہ سے اپنے وطن میں ملوا سکیں۔
ایسے حالات بھی ہیں جن میں ہمیں پتہ چلا ہے کہ ماضی کی صورت حال دوبارہ پیدا ہوئی ہے اور بات ذرائع ابلاغ کی اطلاعات سے آگے بڑھی ہیں۔ اس طرح پراچہ خاندان کو پتہ چلا کہ یہ بائیڈن انتظامیہ پر منحصر ہے کہ آیا وہ متعلقہ فریقین کو رہائی کی پیشگی اطلاع دیتی ہے یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس فیصلے کو آپ وکیل کی حیثیت سے کیسے دیکھتی ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ پراچہ گوانتاناموبے میں دو دہائیوں سے بند سب سے معمر قیدی ہیں۔ وہ بے حد قابل احترام ہیں۔ میں عدالتی کارروائی، قواعد کی خلاف ورزیوں اور پراچہ کی گذشتہ 16 سال اور آٹھ ماہ کی اسیری کو جذباتی انداز میں دیکھتی ہوں۔ اس دوران اس مرکز میں ایک اوسط قیدی نے قواعد کی کئی خلاف ورزیاں کی ہوں گی۔ بعض نے ہزاروں خلاف ورزیاں کی ہوں گی۔ بہت سے لوگوں نے بھوک ہڑتال کی جسے ضابطے کی خلاف ورزی سمجھا گیا۔
جہاں تک پراچہ کا تعلق ہے کہ انہوں نے کتنی بار قواعد کی خلاف ورزی کی، یہ معاملہ خفیہ رکھا گیا ہے لیکن میں پھر بھی کہوں گی کہ ان کی جانب سے کی گئی خلاف ورزیوں کی تعداد ان قیدیوں سے کم ہے جو آج گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں رہ گئے ہیں۔
پراچہ نے نہ صرف قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا بلکہ ان مریکی فوجیوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ اچھا تھا جو انہیں پر کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر انہیں قید میں رکھے ہوئے تھے۔
میری پراچہ کے خاندان سے ملاقات ہوئی ہے جو نیویارک میں مقیم ہے۔ ان کے خاندان کے لوگوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ان کے خاندان کے افراد پاکستان میں بھی رہتے ہیں جنہوں نے حال ہی میں لاہور اور کراچی کے درمیان سفر کیا ہے۔
انہیں خاندانی مکان فروخت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کئی سال تک مشکل وقت گزارا ہے اور پراچہ کی گھر واپسی پر اس مصیبت میں کمی آ جائے گی۔ ایک انسان اور وکیل کے طور پر میری ذمہ داری ہے میں تمام تر اقدامات کر کے اس امر کو یقینی بناؤں کہ جب وہ گھر لوٹیں تو ان کا اچھی طرح استقبال کیا جائے۔‘