’مجھے ابا کے کیس کے بارے میں گوگل سے ہی پتہ چلا تھا میں اس وقت بارہ تیرہ سال کا تھا۔ مجھے ان کا کیس وکی پیڈیا سے پتہ چلا۔ میرا نام جواد ہے میں احمد ربانی کا بیٹا ہوں جو گوانتانوموبے میں ہیں۔ میری عمر 17 سال ہے اور نہ میں نے اپنے باپ کو دیکھا، نہ انہوں نے مجھے۔‘
یہ کہنا تھا گوانتانامو بے میں قید احمد ربانی کے بیٹے جواد ربانی کا، جنہوں نے کراچی میں انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے امر گُرڑو سے اپنی زندگی کے بارے میں بات کی۔
وہ کہتے ہیں: ’میں ابو کے جیل جانے کے پانچ چھ ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔ میں جب میں چھوٹا تھا تو دوستوں کو نہیں بتاتا تھا کہ میرے والد کون ہیں اور کہاں ہیں۔ میں کہتا تھا وہ دنیا میں ہی نہیں ہیں۔ جب ہم نے ان سے پہلی بار بات کی تو انہوں نے بتایا تھا کہ وہ جیل میں ہیں۔ میں نے ان سے سوال پوچھا کہ وہ ’جیل میں کیوں ہیں، جیل میں تو برے لوگ ہوتے ہیں؟‘ تو وہ ہنس پڑے۔‘
احمد ربانی نے ہر اپیل ناکام ہونے کے بعد تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’زندگی میں تو اس جیل سے رہائی ممکن نہیں، اس لیے میں مر کر اس قید سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘
انہوں نے خط میں مزید لکھا، ’امریکیوں کو ڈر ہے کہ کہیں میں بھوک ہڑتال سے مر نہ جاؤں اس لیے وہ مجھے روزانہ زبردستی خوراک کھلاتے ہیں، لیکن یہ بھی تشدد سے کم نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشرف دور میں پانچ ہزار ڈالر کے بدلے سودا
امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی شائع کردہ سرکاری امریکی محکمۂ دفاع کے دستاویزات کے مطابق احمد ربانی القاعدہ کے رکن ہیں اور امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ دستاویزات کے مطابق سعودی عرب میں پیدا ہونے والے پاکستانی شہری محمد احمد ربانی نے اعتراف کر لیا ہے کہ وہ القاعدہ کے سہولت کار ہیں، اور انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ وہ القاعدہ کے سینیئر منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کے لیے براہِ راست کام کرتے تھے۔
محکمے کے نتائج کے مطابق ربانی امریکی مفادات کے لیے ’ہائی رسک‘ ہیں، اس لیے انہیں مسلسل حراست میں رکھا جائے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ’ری پریو،‘ جو احمد ربانی کے حقوق کے لیے قانونی جنگ لڑ رہا ہے، کے سربراہ کلائیو سٹیفرڈ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ احمد ربانی کا القاعدہ یا کسی اور دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان سے یہ اعترافات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ہیں۔
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق احمد ربانی کو Enhanced Interrogation کا نشانہ بنایا گیا، جس سے مراد تشدد لی جاتی ہے۔
سٹیفرڈ کہتے ہیں کہ پاکستانی حکام نے ربانی کو ایک دہشت گرد حسن گل کے دھوکے میں پانچ ہزار ڈالر کے عوض امریکہ کے حوالے کر دیا تھا جو انہیں کابل کی بگرام جیل میں لے گئے۔
عجیب بات یہ ہے کہ 2004 میں خود حسن گل بھی گرفتار ہو کر اسی بگرام جیل میں ربانی کے ساتھ قید رہے اور صرف تین سال قید کے بعد امریکیوں نے انہیں چھوڑ دیا۔ سٹیفرڈ کے مطابق حسن گل دوبارہ جا کر دہشت گردوں سے مل گئے اور 2012 میں وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔
تادم مرگ بھوک ہڑتال
لیکن اس تمام عرصے میں احمد ربانی قید رہے، اور اب بھی گوانتانامو بے میں بند ہیں۔ اسی کے خلاف احتجاج کے لیے انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے۔
سٹیفرڈ نے بتایا کہ ’مسلسل بھوک ہڑتال کی وجہ سے ربانی کا وزن صرف 37 کلو رہ گیا ہے، اور انہیں روزانہ زبردستی ایک نلکی کی مدد سے مائع خوراک دی جاتی ہے۔‘
ری پریو سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی وکیل اور ’مائی گوانتانامو ڈائری‘ کی مصنفہ مہوش حیات خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’احمد ربانی کو غلط شناخت کی بنا پر پکڑا گیا تھا۔ امریکہ نے خود تسلیم کیا ہے کہ ان کے مطلوب شخص نہیں ہیں، لیکن پھر بھی انہیں مسلسل قید میں رکھا جا رہا ہے۔ یہ جنیوا کنونشن، بین الاقوامی قانون اور امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے سامنے 780 میں سے 740 قیدی رہا کیے جا چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ بےحد مغموم ہو گئے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول شدہ خط میں ربانی لکھتے ہیں کہ ان کے پاس تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے، ’انہوں نے مجھے 18 سال سے زیادہ عرصہ سے بند کر رکھا ہے اور میری نظروں میں اس اذیت کا کوئی خاتمہ نہیں ہے۔‘
ربانی لکھتے ہیں کہ انہیں دس ستمبر 2002 کو حسن گل نامی ایک بدنام دہشت گرد سمجھ کر امریکیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔ امریکی انہیں کابل لے گئے جہاں ربانی کے بقول ان پر بدترین تشدد کیا گیا، ’میرے رضاکار امریکی وکلا نے عام مار پیٹ سے لے کر جعلی پھانسی تک تشدد کے 60 طریقوں کو دستاویزی طور پر ریکارڈ کیا۔‘
ڈارک ایجز کے زمانے کا سلوک
ربانی لکھتے ہیں کہ امریکیوں کو ڈر ہے کہ کہیں وو بھوک ہڑتال سے مر نہ جائیں اس لیے وہ انہیں روزانہ زبردستی خوراک کھلاتے ہیں، ’وہ مائع غذا کو زبردستی میرے جسم میں ٹھونسنے سے پہلے میری ناک میں ساڑھے تین فٹ لمبی ٹیوب داخل کرتے ہیں۔ وہ مجھے زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ میرا خیال کرتے ہیں بلکہ اس لیے کہ اگر میں مر گیا تو ایسا ان کے لیے برا دکھائی دے گا۔‘
ربانی نے خط میں لکھا ہے کہ ’انہوں نے میری زندگی برباد کر دی، میرے خاندان کو تباہ کر دیا اور مجھے تاریک دور (ڈارک ایجز) کے تشدد کے طریقوں کا نشانہ بنایا۔‘
ربانی نے خط میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے: ’ایک دن میں نے لمبی سی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جو میرے گھٹنوں تک آتی تھی۔ میں نے سپروائزر کو بلایا اور اس سے کہا کہ وہ میری فوٹو کھینچ لے تاکہ وہ اسے اپنی میڈیکل کلاس میں استعمال کیا جا سکے۔ طلبہ کو یہ سیکھنا چاہیے کہ کوئی شخص اپنی موت سے کچھ دیر پہلے کیسا دکھائی دیتا ہے۔‘
ربانی اپنی حالت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’میں جلد اور ہڈیوں کےڈھانچے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوں اور میں چھڑی کے سہارے گھومتا ہوں۔ میں صرف 51 سال کا ہوں لیکن میں 95 سالہ شخص کی طرح لگتا ہوں۔ میں نے کھڑکی میں سے اپنا سایہ دیکھا ہے اور میں نے سوچا کہ میں شاید ’ان بروکن‘ فلم میں شامل ہوں جس میں امریکی پائلٹوں کے بارے دکھایا گیا جو دوسری عالمی جنگ میں بطور قیدی بھوک سے مر گئے تھے۔‘
ان پر تشدد کیوں کیا جاتا ہے؟
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ربانی لکھتے ہیں: ’میرے امریکی اغوا کار بھی چاہتے ہیں کہ میں تھوڑے سے کھانے کے لیے اپنے ضمیر اور اپنی ذات کو الوداع کہہ دوں، اپنے مذہب اور اخلاقیات کے ساتھ غداری کروں۔ میرے لیے یہ کرنا ممکن نہیں ہے۔‘
ربانی کی مایوسی کا یہ عالم ہے کہ وہ لکھتے ہیں: ’ہو سکتا ہے کہ حتمی طور پر میں ایک تابوت میں اپنے گھر والوں کے پاس جاؤں اور اسی طرح گوانتانامو سے مکمل طور پر فرار ہو جاؤں۔ مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان تمام برسوں کے بعد وہ زیادہ تشدد کر کے میرے پرامن احتجاج کو کمزور کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونے والا، لہٰذا مجھے صرف اس راستے پر چلنا ہو گا جو اس وقت تک چنا گیا ہے جب تک کہ حکومت پاکستان مجھے اپنے گھر والوں کے پاس نہ لے جائے۔‘
ری پریو نے احمد ربانی کی بھوک ہڑتال کے بارے میں ایک ویب سائٹ بنا رکھی ہے جو یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
کراچی میں زیرِ تعلیم احمد ربانی کے بیٹے جواد ربانی کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی جرم کرتا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے تو پھر وہ الگ بات ہے لیکن اس بارے میں نہ ہمیں پتہ ہے کہ ابو کیوں جیل میں ہیں، نہ ابو کو پتہ ہے کہ وہ جیل میں کیوں ہیں۔‘
جواد کہتے ہیں: ’میں نے صدر ٹرمپ کو خط بھی لکھا تھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا، مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے خط دیکھا بھی ہو گا یا نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ امریکہ سپر پاور ملک ہے۔ لیکن اگر وہ انصاف ہی نہیں کر سکتا تو پھر سپر پاور کیوں ہے؟‘