پنجاب کے شہر گوجرہ میں ایک مسیحی لڑکی کو ہراساں کرنے اور تشدد کے بعد متاثرہ لڑکی کے بھائی کی موت کے بعد معاملہ مزید الجھ گیا ہے جبکہ ہراساں کرنے والے ملزمان کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
گوجرہ کے علاقے طارق آباد کے رہائشی اور متاثرہ لڑکی کے چھوٹے بھائی رضوان مسیح نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چند دن قبل ان کی بہن بازار سے دودھ لینے گئیں تو دو مسلمان لڑکوں نے ان سے چھیڑ خانی، جس پر بازار میں موجود ان کے بڑے بھائی عارف مسیح نے انہیں منع کیا۔ جس پر دونوں ملزمان نے دونوں بہن بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور کپڑے پھاڑ دیے، جس کے بعد دونوں بہن بھائی زخمی حالت میں گھر آگئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے تھانہ سٹی گوجرہ میں اندراج مقدمہ کی درخواست دی جس پر دونوں ملزمان کے خلاف ان کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔
رضوان کے مطابق: ’مقدمہ درج ہونے کے چند دن بعد 23 مئی کو ملزمان ان کے گھر آئے اور گالم گلوچ شروع کر دی اور مقدمہ واپس لینے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا، جس کے بعد وہ ان کے بھائی عارف مسیح کو زبردستی موٹر سائیکل پر لے گئے اور انہیں زہر دے دیا۔ حالت خراب ہونے پر عارف مسیح کو ہسپتال لےجایا گیا، جہاں وہ دم توڑ گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے ملزمان کے خلاف مقدمہ قتل درج کرانے کی درخواست دی لیکن پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا، جس پر انہوں نے سمندری روڈ بلاک کر کے احتجاج کیا، تو دوسرا مقدمہ درج ہوا لیکن تاحال پولیس ملزمان کو گرفتار نہیں کر رہی۔
متاثرہ مسیحی خاندان کے وکیل اور مینارٹی الائنس پاکستان کے صدر اکمل بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گوجرہ شہر کے قریبی علاقے طارق آباد میں 50 کے قریب مسیحی خاندان آباد ہیں جبکہ آس پاس مسلمان خاندان آباد ہیں۔
واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس واقعے میں گجر خاندان کے دو لڑکوں نے مسیحی لڑکی کو بھرے بازار میں ہراساں کیا، منع کرنے پر ان کے بھائی پر بھی تشدد کیا گیا اور پھر انہیں زہر دے کر قتل کر دیا گیا۔‘
اکمل بھٹی کے مطابق پولیس دباؤ میں ان کے خلاف کارروائی سے گریز کر رہی ہے اور مقدمہ بھی احتجاج کے بعد درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’لڑکی کو ہراساں کیے جانے اور انہیں بھائی سمیت تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف مقدمہ واپس لینے کے لیے مقامی افراد نے پنچایت بلائی اور مسیحی خاندان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کارروائی سے باز رہیں۔‘
کیا معاملہ ایسا ہی ہے؟
اس واقعے کے حوالے سے جب گوجرہ سٹی کے ڈی ایس پی میاں وقار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بازار میں دو نوجوانوں نے ایک مسیحی لڑکی کو ہراساں کیا اور ان کے بھائی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعہ کا مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی گئی تھی لیکن ملزمان نے قبل از گرفتاری ضمانت کروا رکھی ہے، اس لیے ضمانت خارج ہونے تک انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید بتایا: ’مقدمے کے دوسرے پہلو کے مطابق تفتیش سے ثابت ہوا ہے کہ عارف مسیح نے خود زہر کھا کر خود کشی کی ہے۔ ہمارے پاس ان کی مرنے سے پہلے کی ویڈیو موجود ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر ملزمان سے صلح کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ میں صلح کرنے پر مرنے کو ترجیح دے رہا ہوں۔ اس کے علاوہ اہل علاقہ کو بھی معلوم ہے کہ انہوں نے اپنے ہی گھر والوں اور وکیل کی جانب سے صلح کے دباؤ پر خود کشی کی ہے۔‘
ڈی ایس پی میاں وقار نے مزید بتایا: ’ہم تفتیش کر رہے ہیں، جس میں ثابت ہوچکا ہے کہ لڑکی کو ہراساں کرنے والے ملزم قتل میں ملوث نہیں، لیکن مسیحی برادری نے سمندری روڑ بلاک کیا تو ان کو پُر امن انداز میں منتشر کرنے کے لیے ہم نے ان کی درخواست کے مطابق مقدمہ تو درج کر لیا لیکن یہ خارج ہوجائے گا کیونکہ کسی پر جھوٹا الزام ثابت نہیں کیا جا سکتا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’لڑکی کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری خارج ہوتے ہی ملزمان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔‘