خاتون اول محترمہ بشری عمران نے لاہور میں ’شیخ ابوالحسن شازلی صوفی ازم سائنس و ٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر‘ کا افتتاح کر دیا۔
یہ ملک کی معروف جی سی یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں قائم کیا جائے گا اور اس کے لیے فوری طور پر 10 کروڑ روپے کی رقم فراہم کر دی گئی ہے۔
اس کے ساتھ اس کا علمائے کرام، صوفی ازم پر کام کرنے والے سکالروں اور مذہبی و خانقاہی اداروں سے اشتراک ہو گا جبکہ طلبہ کو سکالرشپس کی مد میں خطیر رقوم فراہم کی جائیں گی۔
خاتون اول کے ویژن کے مطابق ریسرچ سینٹروں کا دائرہ کار پنجاب بھر میں بڑھایا جائے گا اور صوبے میں ریسرچ سینٹر تک ریموٹ رسائی دی جائے گی تاکہ لوگ گھر بیٹھے اس سے مستفید ہو سکیں۔
سکالر شپ کے لیے راہنمائی کی غرض سے ہائر ایجوکیشن کے تعاون سے آن لائن رہنمائی مرکز پورٹل بھی قائم کیا جائے گا۔
یہ ایک خبر جبکہ دوسری جانب آج کی ہی دو مزید خبریں بھی پڑھ لیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی تمام سرکاری جامعات کے ہزاروں پروفیسر، سکالر و ریسرچر تین دن سے پشاور میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں۔
وہ احتجاج کر رہے ہیں کہ حکومت نے سرکاری یونیورسٹیوں کے بجٹ میں خطرناک حد تک کمی کر دی ہے جس کی وجہ سے ریسرچ، نئے پراجیکٹس و سہولیات تو ایک طرف یونیورسٹیوں کے لیے تنخواہیں دینا ناممکن ہو چکا ہے۔
اسی سے منسلک ایک اور خبر کہ پنجاب حکومت نے لاہور کی یونیورسٹیوں کے لیے مختص بجٹ میں 80 فیصد کمی کر دی ہے۔
لاہور کی سرکاری جامعات کے ترقیاتی بجٹ میں 80 فیصد فنڈ کی کٹوتی، شہر کی چھ جامعات کو 14 ارب روپے میں سے صرف دو ارب 30 کروڑ روپے فنڈ ملے گا۔
ان خبروں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کا ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے ویژن کیا ہے۔ ایک طرف تو تصوف، صوفی ازم اور روحانی علوم کے لیے خطیر رقوم فراہم کی جا رہی ہیں جبکہ پہلے سے قائم یونیورسٹیوں کے لیے ترقیاتی بجٹ میں 80 فیصد تک کمی کر دی گئی ہے۔
خاتون اول کا تعلق ایک گدی نشین خاندان سے ہے۔ ان کا روحانیت، تصوف اور صوفی ازم کے حوالے سے ایک نظریہ ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا سرکاری وسائل استعمال کر کے ایک مخصوص روحانی نظریہ فروغ دینا مناسب ہے؟
کیا ملک بھر میں ہر کوئی اس مخصوص روحانی نظریے کا قائل ہے جس کے لیے سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں؟
کیا ہم نہیں جانتے کہ ملک کے بہت سے مذہبی حلقے اس قسم کی روحانیت کو نہ صرف غلط سمجھتے ہیں بلکہ بہت سے علما تو اسے سرے سے اسلامی عقائد اور تعلیمات کی روح کے منافی قرار دیتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید یہ کہ فی الحال کچھ نہیں بتایا گیا کہ اس سینٹر میں کس قسم کی تحقیق ہو گی اور کون سے محقق کسی موضوع پر دادِ تحقیق دیں گے؟
ہر سیاست دان اگر اپنے پسندیدہ روحانی عقائد کی بنیاد پر ان کی ترویج سرکاری وسائل سے شروع کر دے تو ملک میں تعلیمی حالت زار کیا ہو گی؟
ہمارا ملک مختلف الخیال، مکاتب فکر اور مسالک رکھنے والوں کا ہے۔ اگر سرکاری سطح پر ایک مخصوص نظریے کو فروغ، فنڈز اور حکومتی مشینری کے ذریعے قائم کیا جائے گا تو اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا اس طرح کے منصوبے متنازع نہیں ہو جائیں گے؟
خاتون اول کے جو بھی عقائد ہوں وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم ان پر بات کریں۔ وہ اگر چاہیں تو اپنی ذاتی حیثیت میں یا اپنی خانقاہ میں ایک کی بجائے کئی ریسرچ سینٹرز بنوا سکتی ہیں، ذاتی حیثیت میں، مختلف شخصیات، روحانی شخصیات کی جانب سے ادارے، مراکز، خانقاہیں قائم کی جاتی ہیں، اس پر کسی کو اعتراض نہیں، یہ ان کا حق ہے۔
لیکن سرکاری وسائل کا یوں استعمال، سرکاری جامعات میں ایک مخصوص نظریے کا فروغ، صوفی ازم کی اپنی تشریح اور تصوف کے متعلق اپنی سوچ اور ویژن کو نافذ کرنا کس حد تک مناسب ہے؟
ہمارا خیال ہے کہ اس سے سرکاری جامعات میں ایک خاص فرقہ وارانہ گروہ بندی کو فروغ ملے گا اور سرکاری یونیورسٹیوں کے یہ منصوبے متنازع ہو جائیں گے۔ اس میں مسلکی تفریق، فرقہ بندی اور گروہی اختلافات سامنے آئیں گے جو کہ کسی بھی صورت میں قومی یکجہتی کے لیے مناسب نہیں ہو گا۔
نوٹ: یہ بلاگ لکھاری کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔