اگرچہ پشتو کے مشہور صوفی شاعر رحمان بابا کے نام سے کئی عمارتوں اور مقامات کو منسوب کیا گیا ہے، تاہم خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کے نام سے ایک تھانے کے قیام کی منظوری دی گئی ہے۔
پشاور میں گذشتہ روز ایک اجلاس کے دوران تین نئے تھانوں کے قیام کی منظوری دی گئی، جن میں تھانہ ورسک، تھانہ شاہ پور اور تھانہ رحمان بابا شامل ہیں۔
ایس ایس پی آپریشنز ظہور آفریدی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تھانہ رحمان بابا اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس محل وقوع میں آباد کئی دیہات تھانے کی سہولت سے محروم تھے، جس کی وجہ سے بہت زیادہ جرائم کے واقعات پیش آرہے تھے۔
’یہ پولیس سٹیشن رحمان بابا کے مزار کے علاقے ہزار خوانی میں قائم کیا جائے گا اور اس کی حدود میں یکہ توت، بھانہ مانڑی، پشتخرہ، لنڈی اخون احمد اور کئی دوسرے علاقے شامل ہوں گے۔‘
نامہ نگار انیلا خالد سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا کہ ان دیہات میں جائیداد کے تنازعات اور دشمنیوں کی وجہ سے زیادہ تر قتل کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، لیکن تھانے کے قیام سے پولیس کے لیے جرائم پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔
ظہور آفریدی نے مزید بتایا کہ تھانوں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور بہت جلد ان کا افتتاح بھی کردیا جائے گا۔
رحمان بابا ایک عظیم صوفی شاعر
رحمان بابا کا پورا نام عبدالرحمٰن ہے اور وہ 17 ویں صدی کے اوائل میں پشاور کے بہادر کلے کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مہمند قبیلے کی زیلی شاخ غوریا خیل سے تھا، جو پشاور کے گرد و نواح میں صدیوں سے آباد ہیں۔
اپنے ایک شعر میں رحمان بابا کہتے ہیں:
نہ شی د خانانو د ملنگو سرہ کلے
چرتہ عزیز خان چرتہ ملنگ عبدالرحمٰن
(امیر اور فقیر کہاں دوست رہ سکتے ہیں۔ آپ ٹھہرے عزیز خان اور میں ملنگ عبدالرحمٰن)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ وہ ایک روحانی شخصیت تھے، لہذا ان کی شاعری کا محور روحانیت اور تصوف ہی تھا۔
ان کی شاعری ہر طبقے کے مزاج پر پورا اترتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتونوں کی روزمرہ بول چال میں اکثر ان کے شعر کا حوالہ دے کر بات کی جاتی ہے۔
پشتو کے معروف شاعر و ادیب اباسین یوسفزئی نے ان کی ذات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ رحمان بابا کی شاعری اگر پشتو سے نکال دی جائے تو ان کا اخلاقی نظام بہت کمزور ہو جائے گا۔
اباسین کے مطابق: ’ان کی شاعری اخلاقیات اور انسانیت کے درس پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام عالمگیر ہے۔ ان کی شاعری میں ہر کسی کو اپنا آپ نظر آتا ہے لیکن چونکہ وہ خود پشتون تھے تو ان کی شاعری سے بہت حد تک پشتون فیض یاب ہوئے ہیں۔ تاہم ان کی کتابوں کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں ہوچکا ہے، لہذا اب ہر کوئی ان کو پڑھ کر فیض حاصل کر سکتا ہے۔‘