حالیہ دنوں میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر گردش کرتی چند ویڈیوز میں مبینہ طور پر افغان طالبان کو افغانستان میں ’جہاد‘ کے لیے چندہ اکٹھا کرتے دکھایا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان دعووں میں کس حد تک صداقت ہے۔
معاملے کی نوعیت کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا تو انہوں نے پاکستانی سرزمین خصوصاً خیبر پختونخوا میں طالبان کے نام پر چندہ مہموں اور ان کے لیے بھرتیوں سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے مشیر کامران بنگش نے کہا: ’صوبائی حکومت کے پاس ایسے واقعات کی کوئی معلومات نہیں ہیں، تاہم ہم نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور وزارت داخلہ کو ان واقعات کی تفصیلی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔‘
18 مئی کو ٹوئٹر پر بھی ایک صارف نے ایک ایسی ویڈیو اپنے اکاؤنٹ پر پوسٹ کی۔ جس کے ساتھ لکھا گیا تھا کہ یہ ویڈیو گاؤں سندری علاقہ گوالدئی ضلع دیر بالا کی ہے۔ بظاہر خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو میں ایک مبینہ طالب کو مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس میں ایک مبینہ شدت پسند افغانستان میں اتحادی فوجیوں کے خلاف جاری لڑائی کو ’جہاد‘ کا نام دے کر اس کو فرض ثابت کرنے کے لیے دلائل دے رہا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں تاہم ان کی سب کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ یہ کس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور کب کی ہیں۔
پاکستانی سرزمین پر ایسی بھرتیوں کی کوششوں کی تشہیر مغربی میڈیا و سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً ہوتی رہی ہے۔ علاوہ ازیں بعض ملکی و غیر ملکی تجزیہ نگار اور ناقدین بھی اس بات کی ترویج کر رہے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندوں کے مختلف گروہ چندوں اور بھرتیوں میں مصروف رہتے ہیں۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے بعض مقامی صحافی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان کی صفوں میں شامل پاکستانی جنگجوؤں کے ہلاک ہونے پر ان کی میتیں پاکستان لائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
جرمنی کے ایک براڈ کاسٹر ڈی ڈبلیو کی ویب سائٹ پر گذشتہ جمعے شائع ہونے والی خبر میں کہا گیا کہ پاکستان سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چند ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں امام و خطیب طالبان کے لیے چندے اور بھرتیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
اسی خبر میں پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر سرفراز خان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں شمالی و جنوبی وزیرستان سے لے کر کرم اور خیبر تک مولوی صاحبان لوگوں کو اسلامی امارات افغانستان میں شامل کرنے کے لیے ورغلاتے ہیں اور یہ کہ سرکاری اداروں نے اس حقیقت پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز سے استفسار کیا کہ ایسی ویڈیوز کی اصل حقیقت کیا ہے اور ان کا یہ دعویٰ کس بنیاد پر ہے، تو جواب میں پروفیسر سرفراز نے کہا کہ انہوں نے خود ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی ہیں جن میں مولوی لوگ شدت پسندوں کے لیے چندے اور بھرتیاں کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’پچھلے دو مہینوں میں افغانستان سے طالبان جنگجوؤں کی لاشیں لائی جا رہی ہیں، جن میں صوبہ خیبر پختونخوا، صوبہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دیر، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، خیبر، لکی مروت، وزیرستان اور دیگر بعض علاقوں میں ان جنازوں کا سلسلہ جاری ہے۔‘
پروفیسر نے کہا کہ ’اگر چندوں اور بھرتیوں کی بات واقعی پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے علم میں ہے اور وہ پھر بھی اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تو یہ بات پاکستان کی بدنامی کا سبب بنے گی، اس کے علاوہ سفارتی سطح پر پاکستان کئی مشکلات کی زد میں آ سکتا ہے۔‘
پروفیسر سرفراز کے مطابق، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار ہمیشہ مشتبہ رہا ہے۔ ’اس جنگ میں پاکستان ایک جانب اتحاد میں شمولیت سے کوالیشن سپورٹ فنڈ لیتا رہا، تو دوسری جانب القاعدہ کا رہنما اسامہ بن لادن گیرزن سٹی ایبٹ آباد میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ اسی لیے پاکستان کی سکیورٹی اداروں کے کردار پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔‘
’طالبان میں شامل پاکستانی جنگجو کہاں سے بھرتی ہوتے ہیں؟‘
پاکستان میں طالبان کی صفوں کے لیے جنگجوؤں کی بھرتیوں اور ان کے لیے چندے اکٹھے کرنے جیسے الزامات پر مبنی رپورٹوں کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر اعجاز خان سے سوال کیا کہ آیا اس قسم کی رپورٹیں حالیہ افغان بیانیے کا تسلسل یا پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش تو نہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان میں طالبان کے لیے چندوں اور پاکستانی شہریوں کا طالبان کے ساتھ افغان سرزمین پر جنگوں میں حصہ لینے جیسے واقعات پیش آئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’جن ویڈیوز کا حالیہ رپورٹوں میں ذکر ہے یہ بات میرے علم میں نہیں ہے اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ پاکستان میں طالبان کی بھرتیوں کے مراکز کہاں ہیں۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں شدت پسندوں کی جتنی تنظیمیں ہیں اس میں شامل جنگجو آسمان سے نہیں اترے۔ ظاہر ہے کہیں راہ چلتے، کسی مسجد، ویرانے یا ڈرائنگ روم میں لوگوں کو شدت پسند تنظیموں میں شامل ہونے کی دعوت ملتی ہو گی۔‘
افغانستان کی جانب سے الزامات
افغانستان میں حالیہ دنوں میں عید کے موقعے پر تین روزہ جنگ بندی کے بعد جہاں طالبان کے حملوں میں تیزی آئی ہے وہیں افغان قیادت کی جانب سے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ مسلسل برقرار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم دوسری جانب معروف تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’اب حالات مختلف ہیں اور حکومت زیادہ سختی کر رہی ہے۔ وہ لوگوں کو سرحد پار کرکے افغانستان جانے اور طالبان کے لیے لڑنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘ البتہ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ’ہوسکتا ہے کہ کچھ دور دراز کے علاقوں میں افغانستان کی سرحد کے نزدیک کچھ افغان طلبہ جو پاکستانی مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں، وہ افغانستان جا کر طالبان کی مدد کرتے ہوں۔‘
افغانستان کی جانب سے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ 2001 میں طالبان کی حکومت گرنے اور حامد کرزئی کے اقتدار میں آنے کے وقت سے جاری ہے۔
افغان سیاسی رہنما ہر سطح پر اپنے ملک میں امن وامان کی بگڑتی صورت حال اور طالبان کی شکست تسلیم نہ کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے آئے ہیں۔ رواں ماہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب نے افغان مشرقی صوبے ننگرہار میں ایک جلسے کے دوران طالبان کو خبردار کیا تھا کہ ’پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں اپنے مفاد کی خاطر قربان کر دیں گی۔‘
حمد اللہ محب کے مطابق: ’نہ وہ (آئی ایس آئی) آپ کو چاہتے ہیں، نہ ہی اقتدار کی حصولی میں وہ آپ کی امداد کریں گے۔ انہوں نے آج تک آپ سے جھوٹ بولا ہے اور چاہتے ہیں کہ آپ ان کی جنگ میں ان کے لیے قربان ہو جائیں۔‘
افغان طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان لغمان کے صوبے میں گذشتہ اتوار بھی ایک شدید جھڑپ ہوئی جس کے بعد افغان سیاسی رہنماؤں اور مختلف دیگر رہنماؤں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزامات لگائے گئے اور یہ کہا گیا کہ اسلامی امارات افغانستان (طالبان) کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں اور وہیں سے ان کی مالی امداد ہو رہی ہے اور یہ کہ پاکستان افغانستان میں امن کی کوششوں میں مخلص نہیں ہے۔
14 مئی کو جرمن میگزین ’دیر شپیگل‘ کو اپنے ایک انٹرویو میں افغان صدر اشرف غنی نے ایک مرتبہ پھر یہ دعویٰ کیا کہ طالبان کو رسد، مالی امداد، اور ان کی صفوں میں نئی بھرتیاں پاکستان سے ہوتی ہیں، اور افغانستان کی سرزمین پر لڑنے والے طالبان جنگجوؤں کی ڈوریں پشاور شوری، کوئٹہ شوری اور میران شاہ شوری کے ہاتھوں میں ہیں۔
افغان حکومتی میڈیا و اطلاعات و نشریاتی مرکز کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال کے مطابق، افغانستان کے مطالبات واضح ہیں۔ ’ہمیں مکمل یقین ہے کہ ان دہشت گردوں کے ٹھکانے اور ان کو امداد پاکستان سے ملتی ہے۔‘ انہوں نے ایک ٹویٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک ٹویٹ میں بھی کہا کہ افغانستان میں جہاں بھی جنگ ہو رہی ہے وہ پاکستان اپنے کرائے کے طالبان کی مدد سے کروا رہا ہے۔
افغان سیاسی رہنما ہر سطح پر اپنے ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال اور طالبان کی شکست تسلیم نہ کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے آئے ہیں۔ مئی کے مہینے میں افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے افغان مشرقی صوبے ننگرہار میں ایک جلسے کے دوران طالبان کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں اپنی مفاد کی خاطر قربان کر دیں گی۔
پاکستان کا بیانیہ
پاکستان نے حمداللہ محب کے اس بیان پر اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر کو خارجہ دفتر طلب کیا اور ان کے بیان پر سخت احتجاج کیا۔
17 مئی کو پاکستان کے خارجہ دفتر نے اپنے ایک بیان میں افغان قیادت کو خبردار کیا کہ اس قسم کے بیانات نہ صرف دونوں برادر ملکوں کے درمیان اعتماد کی رہی سہی فضا کو ختم کر دے گی بلکہ یہ افغانستان میں جاری مذاکرات کے عمل میں پاکستان کے کردار کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔
28 مئی کو پاکستان نے افغان قیادت کو اپنے اس فیصلے سے بھی آگاہ کیا کہ وہ افغانستان کے سلامتی ادارے کے ترجمان حمداللہ محب سے ان بیانات کے باعث سفارتی تعلقات رکھنے کا خواہاں نہیں ہے۔
’پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘
پاکستان میں طالبان کے لیے بھرتی اور چندوں کی مبینہ ویڈیوز پر تبصرہ کرتے ہوئےاسلام آباد میں مقیم افغان امور کے ماہر وقار حیدر بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس طرح کی خبریں صرف پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کو ایک غیر مستحکم ریاست ثابت کرنے کی کوشش ہے۔
‘اس طرح کی افواہوں کے پیچھے ہمیشہ مقاصد ہوتی ہیں، لیکن کوئی اتنا بے وقوف کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ پاکستان میں اس طرح کی کوششوں سے ان کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ پاکستان میں اس وقت شرانگیزی پھیلانے والی دو قوتیں ہو سکتی ہیں جن میں ایک امریکہ اور ایک انڈیا شامل ہے۔‘
افغان لیڈرز کی جانب سے وقتاً فوقتاً الزامات لگتے آئے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے شدت پسندی اور عسکری کارروائیوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، تاہم امریکی حکام بشمول افغان امور کے حوالے سے امریکہ نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد، نے بارہا طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا سہرا پاکستان کو پہناتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے مثبت حالات میں پاکستان کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسی طرح امریکہ کے انڈو پیسیفک خطے کے لیے تعینات نائب وزیر دفاع ڈیوڈ ہیلوی نے بھی امریکی سینیٹ کی ’آرمڈ سروس کمیٹی‘ کو پچھلے ہفتے سماعت کے دوران کہا تھا کہ پاکستان افغان امن عمل کا حمایتی ہے۔