تین جون کو دنیا بھر میں سائیکل کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد سائیکل کی بطور ذریعہ آمدورفت اہمیت اجاگر کرنا ہے۔
سائیکل چلانے کے کئی فائدے ہیں۔ اول، یہ جیب پر سستی پڑتی ہے۔ دوم، یہ ماحول دوست سواری ہے۔ سوم، یہ انسان کی صحت پر بہترین اثرات ڈالتی ہے بشرطیکہ سائیکل چلا کر سری پائے یا نہاری کا ناشتہ کرنے نہ جایا جا رہا ہو۔
ہمیں یاد پڑتا ہے کہ وزیراعظم صاحب بھی اپنا منصب سنبھالنے سے پہلے لوگوں کو سائیکل چلانے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ ہمیں لگا کہ وہ حکومت بنانے کے بعد اپنی آمدورفت کے لیے سائیکل کا استعمال ہی کیا کریں گے لیکن انہوں نے تو گاڑی کو بھی لفٹ نہیں کروائی، سیدھا ہیلی کاپٹر پر جا سوار ہوئے۔ گرچہ وہ بھی سستی سواری بتائی گئی تھی، پر ہم نے حساب لگایا تو ہمارے لیے سائیکل زیادہ سستی سواری ثابت ہوئی۔ اس کے باوجود ہم پاکستان میں رہتے ہوئے نہ سائیکل خرید سکے اور نہ ہی چلا سکے۔
پاکستان میں خواتین کا سائیکل چلانا معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ ہاں، اگر خاتون غیرملکی ہوں تو وہ لاہور کیا پشاور میں بھی مکمل آزادی کے ساتھ سائیکل چلا سکتی ہیں۔ مقامی خواتین ایسا کرنے کا سوچ تو سکتی ہیں پر اس سوچ پر عمل نہیں سکتیں۔
ہمیں یاد پڑتا ہے کہ پشاور میں ایک این جی او نے ایسا کرنے کا سوچا تھا۔ مذہبی جماعتوں کو اطلاع ملی تو انہوں نے ایسا طوفان کھڑا کیا کہ این جی او کو اپنی اس سوچ کو خود ہی مٹانا پڑا۔ پھر سوشل میڈیا پر کافی بحث ہوئی۔ اگلے سال عورت مارچ ہوا تو ایک خاتون اس حوالے سے ایک پلے کارڈ بھی اٹھا لائیں۔ ہوا کچھ بھی نہیں۔
پچھلے سال لاک ڈاؤن کے دوران شہری علاقوں میں کچھ خواتین نے سائیکل چلانے کی کوشش کی تو انہیں فوراً بتا دیا گیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتیں۔ ایک خاتون کا واقعہ رپورٹ ہوا۔ وہ ایک پوش علاقے میں اپنے بھائی کے ساتھ سائیکلنگ کیا کرتی تھیں۔ پہلے ان کے بھائی سائیکل پر چکر لگا کر آتے، پھر وہ جاتیں۔ ان کے بھائی تو اپنا چکر آسانی سے پورا کر آتے تھے پر وہ نہیں کر پاتی تھیں۔ ان کی دفعہ بائیک یا گاڑی سوار ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیتے تھے۔ انہوں نے تنگ آ کر سائیکل چلانا ہی چھوڑ دیا۔
کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ اگر آپ عورت ہیں تو اپنے گھر میں ورزش والی سائیکل چلا کر ہی اپنی صحت کا دھیان رکھیں۔ اصل سائیکل آپ کے لیے نہیں بنی۔ سائیکل چلانے کا زیادہ چلانے کا شوق ہو تو ملک سے باہر چلی جائیں اور وہاں اپنا شوق پورا کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم نے بھی ایسا ہی کیا۔ پاکستان میں شاید بچپن میں چند بار سائیکل چلائی تھی۔ اس کے بعد ہم بڑے ہو گئے تو بہت سی پابندیاں ہم پر لگ گئیں۔ دو سال قبل چین آئے تو ایک سائیکل کی ایپ بھی ڈاؤن لوڈ کر لی۔ یہاں کئی کمپنیوں نے اپنی سائیکلیں شہر بھر میں رکھ چھوڑی ہیں۔ ان سائیکلوں کو کمپنی کی ایپ کی مدد سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہر سائیکل پر اس کا کیو آر کوڈ پرنٹ ہوتا ہے۔ صارف ایپ کی مدد سے اسے سکین کرتے ہیں۔ رقم کی ادائیگی ہونے کے بعد سائیکل کا تالہ خودبخود کھل جاتا ہے، جس کے بعد سائیکل چلائی جا سکتی ہے۔
ہمیں سائیکل چلانے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ پہلی بار چین آئے تو شاید ایک بار بھی سائیکل چلا کر نہیں دیکھی۔ جہاں جانا ہوتا پیدل ہی چلے جاتے تھے۔ اس بار آئے تو پیدل چلنا تھوڑا مشکل لگنے لگا۔ آپ کو بھی روزانہ دس سے پندرہ ہزار قدم چلنے پڑیں تو آپ بھی تھکنا شروع ہو جائیں گے۔ یوں ہم نے سائیکل استعمال کرنا شروع کر دی۔ اس کے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو وقت بچنے لگا۔ دوسرا مارکیٹ سے واپسی پر بڑے بڑے تھیلے اٹھانے سے جان چھوٹ گئی۔ اب ہم تمام تھیلے سائیکل کے آگے لگی ٹوکری میں رکھ دیتے ہیں۔ پھر مزے سے سائیکل چلاتے اور ہارن بجاتے واپس گھر آ جاتے ہیں۔
ہم چونکہ کرائے والی سائیکل استعمال کرتے ہیں تو کوڈ سکین کرنے سے پہلے سائیکل کو اچھے سے چیک کرتے ہیں۔ پیڈل ٹھیک ہو، سیٹ ایڈجسٹ کی جا سکتی ہو، ٹوکری میں کچھ پڑا ہوا نہ ہو اور ہارن اچھے سے بجتا ہو۔ کیا کریں، دیسی ہیں۔ ہارن کے بغیر کسی سواری کا استعمال نہیں کر سکتے۔
تو دوستو، ہم اس سال سائیکل کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ اگلے سال بھی منائیں گے۔ اس سے اگلے سال شاید پاکستان میں ہوں گے۔ تب گاڑی کا عالمی دن دیکھیں گے کہ کس روز آتا ہے، پھر وہی منایا کریں گے۔
جاتے جاتے بتا دیں کہ پاکستان کی سڑکوں پر سائیکل سواروں کے لیے علیحدہ لین نہیں بنی ہوئیں۔ وہاں سائیکل سوار سڑک کی ایک طرف سائیکل چلاتے ہیں۔ یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں پر سائیکل سواروں کی الگ لین ہوتی ہے۔ پاکستان میں سائیکل کو عوام دوست سواری کے طور پر مقبول کروانے کے لیے ملک کی سڑکوں پر بھی کام کرنا ہو گا۔