31 مئی کو سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو تین سال پورے ہونے پر جہاں ایک جانب قبائلیوں نے خوشی کا اظہار کیا وہیں کچھ قبائل نے اس کو ’یوم سیاہ‘ کے طور پر مناتے ہوئے ’باب خیبر‘ کے مقام پر احتجاج کیا۔
انضمام کے خلاف قائم کی گئی تنظیم ’خیبر قومی جرگہ‘ جس میں قبائلی عمائدین اور بعض سیاسی کارکن شامل ہیں، نے اس موقعے پر کالے جھنڈے اٹھا کر انضمام کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے فاٹا کے انضمام کو غیر فطری اور غیر آئینی قرار دیا۔
احتجاج سے متعلق استفسار پرخیبر قومی جرگہ کے چئیرمین حاجی بسم اللہ آفریدی، جنہوں نے پیر کے دن ہونے والے احتجاج کی سربراہی کی، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انضمام قبائلیوں پر مسلط کیا گیا ہے اور اس بابت ان کی رائے نہیں لی گئی۔ ہم اور ہمارے حمایتی اس اقدام کو مسترد کرتے ہیں۔ فاٹا سے اس کی شناخت چھین لی گئی۔ ہماری سیاسی اکائی ختم ہوئی اور بجائے قبائلیوں کو جمہوری حق دیتے ہوئے ریفرینڈم کرایا جاتا، ان پر انضمام کو مسلط کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج قبائلی علاقوں میں انضمام کی وجہ سے کئی مسائل جنم لے چکے ہیں۔‘
بسم اللہ آفریدی نے ان مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ’ہمیں اس وقت جائیداد کے تنازعات اور علاقائی حد بندی جیسے تنازعات کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں کئی لوگ مارے جاچکے ہیں۔ نئے صوبائی نظام میں ہمارے ان مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔‘
آفریدی کے مطابق ’متذکرہ مسائل پہلے سابقہ فاٹا میں قبائلی جرگوں یا پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے حل ہوجاتے تھے، تاہم اس وقت نہ ان کے پاس پرانا نظام ہے اور نہ ہی کوئی نیا انتظام۔ پرانے فاٹا کا انضمام بانی پاکستان محمد علی جناح کے اس وعدے کی بھی خلاف ورزی ہے جو انہوں نے قیام پاکستان کے وقت قبائلی عوام سے کیا تھا، جس کے مطابق، ریاست پاکستان قبائلیوں کی آزاد حیثیت کو چیلنج نہیں کرے گی۔‘
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان سیاسی کارکن حسیب سلارزی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ انضمام کے سخت مخالف رہے ہیں جس کی وجہ انہوں نے بتاتے ہوئے کہا ’یہ انضمام جلدبازی میں اور نہایت غیر منظم وغیر ذمہ دارانہ طریقے سے کیا گیا۔ اگر انضمام کے لیے وقت دیاجاتا، وہاں مسائل حل کرنے کے لیے پہلے زمین ہموار کی جاتی، قانون کی رٹ قائم ہوتی، عوام کو اعتماد میں لیا جاتا، تو آج حکومت اور قبائلیوں کو اتنے مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔ ضم شدہ اضلاع کے لیےسالانہ سو ارب کا وعدہ پورا نہ کرنے کی ذمہ داری تحریک انصاف حکومت پر اس لیے عائد ہوتی ہے کہ وفاق سمیت تین صوبوں میں اس وقت حکومت ان کی ہے، لہذا فنڈز دینے کی ذمہ داری بھی ان ہی پر عائد ہوتی ہے۔
قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت چاہے وہ انضمام کے حق میں یا خلاف ہوں، یہ ضرور کہتے ہیں کہ ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کے لیے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔‘
انضمام کی حمایت کرنے والوں کا موقف
قبائلی اضلاع میں پچیسیویں آئینی ترمیم کی حمایت کرنے والوں کا الزام ہے کہ خیبر پختونخوا میں ان کی شمولیت کے مخالفین وہ افراد ہیں جن کےفرنٹیرکرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) اور پولیٹیکل ایجنٹ کے دفاتر سے مفادات پورے ہوتے تھے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے نوجوان سماجی کارکن عامر آفریدی کا کہنا تھا کہ ’مخالفت کرنے والوں کا مالی احتساب کرکے ان کے اثاثہ جات معلوم کیے جائیں۔ خیبر قومی جرگہ میں شامل لوگوں میں سے بعض لوگ تو کوئی پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں ڈیوٹی پر معمور تھے، جہاں سے ان کو لاکھوں کروڑوں کی مراعات ملتی تھیں۔ مخالفت کرنے والا دوسرا طبقہ وہ ہے جو بے صبری کا شکار ہیں اور ضم شدہ اضلاع میں فوراً سے پیشتر ترقی چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلیوں کی اکثریت انضمام سے خوش ہے۔‘
انضمام کے حق میں بولنے والوں میں سے ایک باجوڑ سے تعلق رکھنے والے فاٹا یوتھ ونگ کے مرکزی نائب صدر اختر گل بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ فاٹا کا تعلیم یافتہ طبقہ انضمام سے بہت خوش ہے کیونکہ انہیں پہلی مرتبہ وکیل، دلیل اور اپیل کا حق مل گیا۔
’انضمام سے قبل پولیٹیکل ایجنٹ ہی قاضی ، قانون اور جزا کا حق رکھتا تھا۔ ایف سی آر کا کالا قانون ہم پر مسلط تھا، جس میں ایک شخص کے جرم کی سزا اس کے پورے خاندان یا قبیلے سے دی جاتی تھی۔ اگر نئے اضلاع میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوگیا تو مخالفت کرنے والے بھی گوشہ نشین ہو جائیں گے۔‘
ضلع خیبر کے ’فاٹا یوتھ فورم‘ کے نوجوان صدر بخت علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوئی بھی انضمام کے خلاف نہیں ہوسکتا جب تک کسی کے اپنے ذاتی مفادات کی راہ میں انضمام کی وجہ سے رکاوٹ نہ آئی ہو۔ ’احتجاج کرنے والوں کی اکثریت ایسے ہی افراد کی ہے حالانکہ اب تو ہمیں صوبائی وقومی اسمبلی میں نمائندگی مل گئی ہے اور ہمیں اپنے علاقوں کے حوالے سے خود قانون سازی کا اختیار مل گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بخت علی شاہ نے کہا کہ ’کچھ حقیقی مسائل بھی غور طلب ہیں جیسے کہ حکومت کی جانب سے تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ کا وعدہ، صنعتوں کا قیام، روزگار کے مواقع، صحت اور تعلیم کے ترقیاتی منصوبے، ایسے موضوعات ہیں کہ اگر ان کو جلدازجلد نمٹایا گیا تو مکین قبائلی اضلاع کا احساس محرومی ختم ہو جائے گا۔
ناقدین کے مطابق، فاٹا کے انضام کے وقت ضم اضلاع سے فنڈز کا وعدہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک زبانی وعدہ تھا جس کو کبھی بھی تحریری شکل نہیں دی گئی۔
صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ضم شدہ اضلاع میں جاری ترقیاتی کام صوبے کے فنڈ سے تحریک انصاف حکومت پوری کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے این ایف سی ایوارڈ میں اگر صوبوں کا حصہ چودہ سے انیس فیصد ہوگیا تو اس کا براہ راست فائدہ قبائلیوں کو ہوگا۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق راولپنڈی جی ایچ کیو میں 241 ویں کور کمانڈر اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ قبائلی اضلاع میں قربانیوں کے بعد حاصل کیے گئے امن کو استحکام اس وقت مل سکے گا جب ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں پر جلد ازجلد کام شروع ہوگا۔