یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
مرحوم علامہ طالب جوہری کی مجالس سننے والے یوں تو ان کی علمی و ادبی شخصیت کی کمی محسوس کرتے ہوں گے لیکن ان کے مخصوص انداز خطابت کی یاد بھی آتی رہتی ہے۔
جب قرآن کریم، حدیث یا فلسفے سے کوئی مشکل موڑ نکال لاتے تو کہا کرتےتھے کہ ’عجیب مرحلہ فکر ہے جہاں میں اپنے سننے والوں کو لے آیا ہوں۔‘
یہ عجیب مرحلہ فکر کا آنا ہوتا تھا کہ سامعین اپنی توجہ اور دھیان کو مزید یکسو کر لیا کرتے تھے، یعنی سننے والے کان دیکھنے کی کوشش میں لگ جاتے تھے، مجمع سانس ساکت کر لیا کرتا تھا کہ دھیان بٹا تو کہیں فکری نکتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
تو اپنے پڑھنے والوں کے سامنے آج میں بھی ایک عجیب مرحلہ فکر لے کر حاضر ہوئی ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ طالب جوہری کے پاس اس فکر کا منطقی جواب ہوتا تھا اور میرے پاس فی الحال جواب کی بجائے سوال در سوال ہیں۔
ایسا عجیب موضوع ہے یہ آزادی اظہار رائے کہ کہنا چاہیں بھی تو کھل کر نہیں کہہ سکتے کہ زبان کو تالا کس نے ڈالا۔ اور اگر یہ کہہ دیں کہ میڈیا پہ قدغن کوئی نہیں تو یہ بھی ایسا سفاک جھوٹ ہے بولنے کو ہمت درکار ہے۔
جن اخبارات کو پڑھنے کی ترغیب بچپن میں اماں ابا نے دی انہی اخباروں میں لکھنے والوں کو کیسے کہہ دیں کہ یہ سینیئر نہیں۔ اور جو سینیئر ہیں اگر ان میں کئی ایسے نکل جائیں جو صحافت کو مقدس پیشہ نہیں نوٹوں کی کمائی کا ذریعہ سمجھتے رہے پھر ان کی سینارٹی کا کیا کیجیے؟
جن کی رپورٹنگ دیکھ کر ہم جیسی کتنی ہی نسلوں کو یہ شوق چڑھا کہ وہ بھی خاکی رنگ کی جرنلسٹ جیکٹ پہنے، ہاتھ میں مائیک اٹھائے تگڑے لوگوں سے سخت سوال کریں، آج کیسے انہیں کہہ دیں کہ یہ صحافی نہیں؟
پھر کئی صحافی ایسے ہیں کہ ’جتنی ہماری عمر ہے اتنا تو ان کا تجربہ ہے۔‘ جب ایسے برسہا برس کے تجربہ کاروں کو پارٹیوں، شخصیات، اداروں اور عہدوں والے بڑے لوگوں کے ہاتھ بکتے دیکھا تو کئی بار سوچا کہ کیسے کہہ دیں کہ یہ صحافی ہیں؟
ایسے سینیئر صحافی ملے کہ جنہوں نے زندگی کے تیس چالیس برس صحافت کو دے دیئے لیکن دو کمرے کے فلیٹ سے آگے نہیں بڑھ پائے، کچھ ایسے تھے جو مرے تو پیچھے گھر والوں کے لیے بھگتنے کو قرضے چھوڑ گئے۔ مگر پھر جب کئی کنال پہ پھیلی کوٹھی والے بڑے صحافی کو دیکھا تو گڑ بڑا گئے۔
عجیب مرحلہ فکر ہے۔۔۔۔۔
بتایا گیا کہ صحافت کرنی ہے تو صحافی بنو ہم بھی جوتیاں چٹخانے کو پیچھے پیچھے چل دیئے۔ لیکن یہ سمجھ بعد میں آیا کہ اینکر کنگ میکر ہوتا ہے، کچھ بننا ہے تو اینکر بنو۔ اینکر بنو اور لکھے لکھائے سکرپٹ کی بنیاد پہ بنو۔ اب کنفیوژن یہ ہے کہ سکرپٹ ہی پڑھنا ہوتا تو ہم اداکار بنتے۔
پھر مانتے ہیں نا کہ فکر کا یہ سفر بہت نازک دور سے گزر رہا ہے۔
اخبار کی سرخیوں اور ٹی وی کی بریکنگ سے سیکھتے رہے کہ صحافی سیاست دان کو اور حکمران دونوں کو جوابدہ کرتا ہے۔
یہی اندھا یقین لے کر ہم بھی رپورٹنگ میں کود پڑے۔ لیکن کیا دیکھا کہ صحافی سیاست دان کا دوست ہے، ہم راز ہے، ہم درد ہے۔ سیاسی پارٹی کی خبر دیتے دیتے کب وہ صحافی سے کارکن بن جاتا ہے یہ فرق ہم دور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
رپورٹنگ میں بیٹ یعنی کوریج کا حلقہ بانٹنا ایسا ہی ہے جیسے گینگز نے علاقے بانٹ رکھے ہوں۔ دفاعی اداروں کی رپورٹنگ کرنے والوں سے کبھی نہیں سنیں گے کہ دفاع کے نام پہ کیا ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم کی کوریج پہ مخصوص صحافی حکومت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو بھی رپورٹ وہ کرتے ہیں جن کے لیے وہ پارٹی اپنی ہوتی ہے۔
ہم نے جس صحافی کو سیاست دانوں کو گالی دیتے دیکھا، وہ اسی سیاست دان کے دیوان خاص میں بھیگی بلی سا بنا بیٹھا بھی نظر آیا۔ جس صحافی کو زور و شور سے یہ کہتے سنا کہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے حساب تو ہم لیں گے، پھر وہی سرکار سے سپیشل فنڈز بٹورنے کے لیے ہر حربے چلاتا دکھائی دیا۔
یعنی عجیب مرحلہ فکر ہے مرے دوستو!
جس کو آج دیکھتے کہ وہ جی ایچ کیو یا وزیر اعظم ہاؤس کا دُلارا، چند جنرل اور وزیروں کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے، وہ ایام کے فرق سے آنکھ میں چبھا شہتیر بن جاتا ہے۔
جو زبانیں جرنیلوں اور حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں سناتے نہیں تھکتیں وہ بے وقت بے وجہ چپ ہو جائیں یہ بھی ہوتا ہے۔
ہم نے اس ملک میں صحافتی جدوجہد کے بڑے ناموں کو دیکھا بڑا حوصلہ ملا، کوڑے کھانے والوں کو آج بھی نعرے لگاتے پایا تو انقلاب مجسم سامنے کھڑا ملا۔ لیکن جب اسی میدان عمل میں صحافت کے ایسے لیڈران سے ملاقات ہوئی جو مخصوص ایجنڈوں، بڑے پلاٹوں اور فنڈز کی چھری سے صحافت حلال کرتے ہیں تو دل بڑا خراب ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنا تھا کہ صحافت ریاست کا ستون ہے، ریاست کی عمارت کو کھڑا رکھنے میں صحافت کا اہم کردار ہے۔ لیکن بہت سے تنخواہ دار صحافیوں کو دیکھ کہ لگتا ہے صحافت ستون نہیں ریاستی اداروں کو سروس دینے کا نام ہے جس کا کام ریاست کے دیگر ستونوں کی صرف واہ واہ کرنا ہے یہ بتانا نہیں کہ بنیادوں کو سیم لگ گئی ہے ستون ہل رہے ہیں خبر لیجیے۔
عجیب مشکل یہ ہے کہ اب موچی بھی صحافی ہے، یوٹیوب پہ دو چار برسوں سے ویڈیوز کرنے والا بھی صحافی۔ کھلم کھلا سیاسی جماعتوں کے پے رول پہ کام کرنے والا صحافی ہے اور سرکاری عہدے سے ریٹائر ہونے والا تجزیہ کار بھی صحافی ہے۔
اب زور خطابت رکھنے والا وکیل صحافی ہے، سیاسی کمنٹری کرنے والی ماڈل گرل بھی صحافی۔ سماجی کارکن بھی دو چار بلاگز لکھ کر صحافی ہے، تنخواہ دار پیشہ ور سوشل میڈیا ٹرول بھی صحافی ہے۔
صحافیوں کے اس کمبھ میلے میں ہم جیسے طالب علم صحافی یہاں وہاں ڈھونڈ رہے ہیں کہ حق سچ پہ مبنی، طاقت ور کو جوابدہ کرتی صحافت کہاں ملے گی۔ صحافت جس میں کسی ذاتی پسند و ناپسند یا باقاعدہ حق یا مخالفت میں مہم چلانے پہ زور نہ ہو۔ صحافت جس سے بازار کی بو نہ آئے۔
جو چند ایک ایسے سرپھرے صحافی دستیاب ہیں، وہ سب کے سب معتوب ہیں۔
یعنی عجیب مرحلہ فکر ہے مرے دوستو!