جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے دو یونین ٹریٹریز میں منقسم کرنے کے اعلان کے تقریباً بارہ روز بعد یہ پہلا موقع ہے جب میں دلی پہنچ کر چند صحافیوں سے ملی۔
ان میں بیشتر وہ ہیں جو عالمی میڈیا میں رہ چکے ہیں یا آج بھی بعض غیرملکی چینلوں سے وابستہ ہیں اور بھارت کے موجودہ کشیدہ ماحول میں بھی غیرجانب داری کو آنچل میں سنبھالے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انہیں کافی دشواریوں کا سامنا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ منہ کھولنے سے پہلے یہ آس پاس نظریں دوڑاتے ہیں کہ کہیں کوئی ان کی بات سن نہ لے۔
مجھے دیکھ کر انہیں اطمینان تو ہوا کہ کشمیر جیسی بڑی جیل میں رہ کر بھی میرے ہوش و حواس قائم ہیں لیکن کشمیر کی اندرونی کہانی سننے کے لیے بڑے بےتاب بھی ہو رہے تھے۔ کوئی بات شروع ہوئی نہیں کہ وہ مجھ پر سوالوں کے تیر چلانے لگے۔
’بھارتی فیصلے کے خلاف کشمیر میں مظاہرے کیوں نہیں ہوئے؟
فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ یا محبوبہ مفتی کی گرفتاری کے خلاف ان کے پارٹی کارکن سڑکوں پر کیوں نہیں نکلے؟
کیا حریت اب پوری طرح غائب ہو چکی ہے؟
کیا شدت پسندی پھر سے شروع ہوگی؟
نئی قیادت میں کس کس سے سودا ہوا ہے؟
حکومت کا اگلا قدم کیا ہوگا؟؟؟؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظاہر ہے بے باک اور غیرجانب دار صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو کشمیری عوام کی طرح خاموش اور سُن کر دیا گیا تھا اور صرف ایسے رپورٹروں کو بڑے ہوٹل میں ٹھرا کر ان کو کشمیری مہمان نوازی سے متعارف کروایا جا رہا ہے جو کشمیری وازہ وان کھاتے کھاتے اس قدر بھاری پن محسوس کر رہے ہیں کہ چینل پر ایک علاقے کی ناکہ بندی اور فوجیوں کی اکثریت دکھا کر کہہ رہے ہیں ماحول پرسکون ہے، دکانیں کھلی ہیں اور لوگ روزمرہ کی خریداری میں مصروف ہیں۔
ٹی وی سکرین پر بند دکانیں، خاردار تار کے ناکے اور بندوقیں تانے فوجی نظر آ رہے ہیں... ایک دکان کے بورڈ پر بیکری لکھا ہوا ہے اور شٹر پر تقریباً پانچ کلو وزنی تالا لگا ہے البتہ رپورٹر کہہ رہا ہے کشمیر میں بیکری شاپ کے سامنے بھیڑ دیکھی جاسکتی ہے جبکہ کتوں کی بڑی تعداد دکان کے سامنے سو رہی ہے۔
بیشتر کشمیریوں نے انڈین ٹی وی دیکھنا بند کیا ہے گو کیبل نیٹ ورک پر پابندی لگنےسے اکثر لوگ خوش ہوگئے تھے کہ حکومتی نامہ نگار ترجمانوں کی بک بک سننے سے خلاصی مل گئی، ورنہ حکومت کی مہیا کردہ فوٹیج دکھا کر اب پاگل ہوجانے کاخطرہ تھا۔
ہیلی کاپٹروں میں کی گئی یہ رپورٹنگ بھارتی عوام میں خوب بکی اور میں یقین کے ساتھ کہتی ہوں بھارتیہ جنتا پارٹی کو آئندہ چار ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھاری اکثریت ملے گی، علاقائی پارٹیوں کا جنازہ پڑھنا لازمی ہوگا اور ووٹروں کو ہندوتوا کے آٹے میں بنائی جانے والی روٹیاں خوب ہضم ہو رہی ہیں۔
جہاں یہ رحجان جموں و کشمیر کے عوام کے لیے اذیت سے کم نہیں وہیں بےباک اور نڈر صحافیوں کے لیے جگہ کافی تنگ پڑتی محسوس ہو رہی ہے۔
ایک سرسری اندازے کے مطابق کشمیر میں دس لاکھ فوجی موجود ہیں جن کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ ہر گلی، کوچے، دفتر یا سکول کے پاس بنکر بنائے گئے ہیں۔
بیشتر نئی عمارتوں میں لاتعداد فوجی بٹھائے گئے ہیں۔ پانچ اگست کی صبح سے گاڑیوں سے اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ کوئی باہر نہ نکلے ورنہ سخت کارروائی کی جائے گی۔
فون، لینڈلائن یا انٹرنیٹ کو بند کیا گیا ہے۔ سیاسی رہنما، کارکن، سول سوسائٹی، تاجر برادری، وکلا، آزادی پسند اور ہندوستان پسند سب کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ ریاست کو جب فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہو تو ایسے حالات میں کون گھر سے نکلے اور مظاہرہ کون کرے۔ پھر بھی چھوٹا موٹا احتجاج دیکھا جا رہا ہے۔
کون محبوبہ مفتی یا عمر عبداللہ کے حق میں جلوس نکالے جن کے سیاسی کرتوتوں نے ہی کشمیر کو اس چوراہے پر پہنچایا ہے، اور کسے پرواہ کہ کہاں سے پیراٹروپر سیاست دانوں کو اعلیٰ ایوانوں میں بٹھا دیا جائے گا...اور سب سے زیادہ کسے خبر کہ عالمی میڈیا نے کشمیر کو صحیح تناظر میں پیش کیا۔
میرے صحافی دوست میری طرح ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہے تھے اور کچھ مزید کہنے سے کترا رہے تھے لیکن زبان پر اتنے سوال تھے کہ میں جواب دینے سے گھبرا گئی۔ مجھے اندازہ ہے اب میں اس دلی میں نہیں ہوں جہاں ہم اپنی برادری میں بیٹھ کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے یا سیکولرازم کا دم بھرتے تھے یا ایک ساتھ کسی خبر کی تلاش کرکے اس پر کھل کر تبصرہ کرتے تھے۔
مانا دلی میں اروند کیجریوال کی حکومت ہے مگر بھارتی حکومت کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کی حمایت کر کے اس نے خود کو بہت نیچے گرا دیا ہے۔ آپ چاہے کشمیر میں ہیں یا کسی اور ریاست میں، خوف اور ڈر اب ہمارے ساتھی بن چکے ہیں۔ جس ملک میں پارلیمانی اراکین کو طیاروں میں بٹھا کر ریاست سے نکال باہر کیا جاتا ہے، وہاں عام آدمی دن دھاڑے اب غائب کیے جاتے ہیں۔۔۔ ہماری کیا مجال کہ کھل کے بات کریں۔
ایک صحافی دوست نے پوچھا ’عالمی میڈیا نے پھر بھی حالات کو صحیح ڈھنگ میں پیش کیا۔ عوام کو ذرا تشفی تو ہوئی ہوگی؟‘
’بھائی میرے، تشفی تو تب ہوتی جب کیبل چلتی اور ہم ان رپورٹس کو دیکھتے۔ ہر طرف ایک سناٹا چھایا ہوا تھا جو حکومت کی مہربانی ہے۔ سوشل میڈیا کی عنایت ہے کہ میں نے عالمی میڈیا کی بیشتر رپورٹیں دلی میں پہنچ کر پڑھیں اور واقعی ذرا سا سکون ملا کہ اس اندھیری دنیا میں ابھی روشنی کی کرن باقی ہے۔ بی بی سی, انڈپینڈنٹ، گارڈین، الجزیرہ اور ٹی آر ٹی نے ہماری اذیت ناک حالات کی صحیح عکاسی کی ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کشمیری احتجاج کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ بھارتی پارلیمان کے کشمیر سے رکن فیاض احمد میر پانچ اگست 2019 کو حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ (اے ایف پی)دلی میں پہلی بار مجھے پاکستانی میڈیا چینلز دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ کشمیر میں ہم دو سال پہلے تک پاکستانی ڈرامے دیکھا کرتے تھے جو بند کر دیے گئے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کل تک پاکستانی میڈیا کے لیے کشمیر محض تاریخ کا ایک باب تھا مگر آج ہر کوئی کشمیر پر مر مٹنے کے لیے تیار دکھائی دے رہا ہے۔
بحث و مباحثے جاری ہیں جن میں شدت پسندی شروع کرنے، ایل او سی پار کرنے اور کشمیریوں کی ہر ممکن مدد کرنے کے مفت مشورے دیے جا رہے تھے حتی کہ وزیر اعظم نے ہمارے گیلانی کی طرح احتجاجی پروگرام کی تشہیر بھی کر دی۔
پاکستان کی ’کشمیرداستان‘ بھی خوب ہے۔ جب چاہے عالمی سے باہمی بنا دیتا ہے اور جب چاہا اقوام متحدہ پہنچ کر ہنگامہ کرتا ہے اور پھر آگرہ میں چار پوائنٹ لے کر خالی ہاتھ نکل جاتا ہے۔ اب آج ایک بار پھر ہمارے لیے شیر کی طرح دھاڑیں مارنے لگا ہے۔
بھارت اس کے جواب میں ایک قدم مزید آگے چلا جاتا ہے، وہ اب باہمی سے اندرونی پر پہنچ گیا ہے۔ چین دور سے مسکرا کر کہتا ہے میری اقتصادی راہداری پر نظر ڈالنے والے تیرا منہ کالا... دونوں ملکوں کو خوش رکھنا میرا مشغلہ بن گیا ہے۔
بے چارے مظلوم اور محکوم کشمیری اب کچھ نہیں کہتے۔ ان کی کون سنے گا وہ تو دنیائے شطرنج کے مہرے بنے ہیں۔ میں خود سے کہہ رہی ہوں برصغیر میں کوئی ایک بندہ بھی نہیں جو اپنی انا کو چھوڑ کر ایک بار کاش یہ کہتا کہ ایک کروڑ کی آبادی کو جو تین ہفتوں سے محصور ہے ان پر بندشیں ہٹانے کے لیے کیا کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ سابق فوجی جنریلوں کو دفاعی تجزیہ نگار بنا کر جنگ کے بغیر کچھ سوجھتا نہیں.... وہ چاہے سرحد کے اس پار کے فوجی ہوں یا اس پار کے۔
میرے صحافی دوست میرے چہرے کے تاثرات پڑھ رہے تھے اور این ڈی ٹی وی کے رویش کمار کے بھائی جیسے میرے دوست صحافی نے کہا ’ارنب گوسوامی کا پاکستانی ورژن بھی ضروری ہے ورنہ دونوں کا کشتی لڑنےکا مقابلہ تو یک طرفہ نظر آئے گا۔‘
میں اپنے دوستوں کی اس بات سے متفق ہوں کہ چند صحافیوں کو چھوڑ کر اب سب ایمبڈڈ صحافی بن گئے ہیں اور برصغیر میں اپنی شناخت قائم رکھنے اور زندہ رہنے کے لیے حکومت کا ترجمان بننا بہت ضروری ہے۔