لفافہ صحافی یا زرد صحافت کا طعنہ تو صحافیوں کو گاہے بگاہے سننے کو ملتا ہی رہتا ہے لیکنن اس پر بات کوئی نہیں کرتا۔
یہ موضوع اتنا حساس بنا دیا گیا ہے کہ مجھے خوش گوار حیرت ہوئی جب لفافہ ڈائین نامی ایک ڈارمے کا اشتہار میری نظر سے گزرا۔ ڈراما ٹیم کے لیے دل سے بڑی ستائش نکلی۔
بڑے شوق سے انٹرویو نما اشتہار دیکھنا شروع کیا لیکن پہلا ہی جملہ کھٹک گیا۔ ’پتہ نہیں کن کن بسوں میں عطر بیچنے والوں کو اینکر بنا دیا ہے۔‘
ہو سکتا ہے کہ آپ مزاحیہ انداز میں ادا کیے گئے اس جملے کو سن کر قہقہ لگائیں۔ تمثیل لکھنے والی کی حس مزاح سے محظوظ ہوں۔
لیکن اس جملے سے ایک ایسا تاثر ابھرتا ہے کہ جیسے ملک میں صحافت کے زوال کی وجہ صحافیوں میں پیشہ ورانہ لیاقت کا فقدان ہے یا پھر یہ کہ صحافی مال و دولت کی ہوس میں اندھا ہو چکا ہے۔
ایک صحافی ہونے کے ناطے مجھے یہ ماننے میں قطعی تامل نہیں ہے کہ شاید ملک میں صحافت کا معیار وہ نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا یا ہونا چاہیے۔ میری ناقص رائے میں اس میں صحافیوں کی لیاقت یا ہوس کا نہیں بلکہ دیگر عوامل کا ہاتھ ہے۔
صحافت کوئی نیا پیشہ تو ہے نہیں نہ ہی یہ الزام نیا۔ اخبار تو قدیم روم میں بھی شائع ہوتا تھا لیکن جتنا پرانا یہ پیشہ ہے حکمرانوں کا جبر بھی اتنا ہی پرانا ہے۔
حکومتوں نے ہمیشہ سینسر، ٹیکس اور دوسری پابندیاں لگا کر اخبارات کو ہانکنے کی کوشش کی۔ ہر دور میں صحافیوں سے تقاضا یہی رہا کہ ہر ناعاقبت اندیش فیصلے پر بھی واہ واہ ہی کریں۔
ہمارے ہاں بھی صحافت سے یہی توقع کی گئی۔ شاید زیادہ شدت کے ساتھ کہ ملک آزاد ہونے کے بعد بھی جو حکمران آئے وہ عوام کو غلام ہی سمجھتے رہے۔ اشاعتی اداروں کو بھی جلد ہی سمجھ آ گئی کہ عوام کو سچ سے آگاہ کرتے رہنے یا یوں کہیے کہ اپنی دکان چلانے کے لیے انہیں حالات سے سمجھوتہ کرنا ہوگا۔
سینکڑوں یا درجنوں ملازمین کی اجرت، بجلی گیس کے بل، کاغذ روشنائی اور پھر ترسیل۔ اس سب کے لیے ماہانہ بنیاد پر خطیر رقم درکار ہوتی ہے۔ پیسہ اشتہارات سے آتا ہے اور اشتہار سرکار سے۔
لیکن تمام تر لالچ، معاشی مجبوریوں اور ریاست کی سختی کے باوجود اشاعتی اداروں نے کسی حد تک توازن قائم رکھا۔ اگر کبھی کسی کی توصیف میں کچھ لکھا تو ساتھ ہی تنقید بھی کر دی۔ عوام تک تصویر کے دونوں رخ بہرحال کسی نہ کسی شکل میں پہنچتے رہے۔
پھر 2000 کے بعد نجی ٹی وی کا دور آیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو ملک میں بے دریغ پیسہ آیا، معیشیت خوب پھلی پھولی۔ عوام میں مقبولیت دیکھ کر کاروباری اداروں نے بھی ٹی وی کی طرف رخ کر لیا۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے دھڑا دھڑ ٹی وی چینل کھل گئے۔ سن 2002 اور 17 کے درمیان ملک کی میڈیا انڈسٹری میں کوئی چار ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی۔
اشتہار دیکھے جانے یا ریٹنگ کی بنیاد پر جاری ہوتے تھے۔ مسابقت کی دوڑ میں ٹی وی رپورٹنگ بریکنگ نیوز بن گئی اور تجزیے ملاکھڑوں میں تبدیل ہو گئے۔ ہم محبت میں انسان کو دیوتا بنا دیتے ہیں اور نفرت میں اسے ملعونیت کے درجے پر فائز کر دیتے ہیں۔ صحافت میں بھی ہمارے اس خلوص کی جھلک نظر آنے لگی۔
اس پروگرام کی ریٹنگ سب سے زیادہ ہوتی جس میں ماردھاڑ اورگالی گلوچ زیادہ ہو۔ پسے ہوئے عوام کے لیے ٹی وی ایک نشہ بن گیا۔ اب نشہ پورا کرنے کو صحافی ہر وقت بریکنگ نیوز کہاں سے لائے۔ روزانہ ایک گھنٹے کے ٹاک شو کے لیے بھی مواد چاہیے۔
جب موضوع ختم ہوئے اور صحافیوں، اینکروں کو کچھ نہ سوجھا تو انہوں نے ہوائی قلعے تعمیر کرنا شروع کر دیئے۔
اب ہر صحافی پرائم ٹائم پر بیٹھ کر روزانہ ایک نئی خیالی عمارت بناتا اور ثابت کرتا کہ اگر اس میں سرخ اینٹوں کی جگہ سفید اینٹیں لگا دی جائیں تو یہ وائٹ ہاوس سے بھی طاقت ور بن سکتی ہے۔ دیکھنے والے صحافیوں کی فہم و فراست اور دور کی کوڑی لانے کی صلاحیت پر عش عش کر اٹھتے۔
ریٹنگ کے چکر میں کئی ٹی وی پیشہ ور سٹیج اداکار لے آئے۔ عوام کو سوٹ پہن کر جگتیں مارتے یہ اینکر بہت ہی بھائے۔ اس دوڑ میں کچھ صحافی بہک بھی گئے ہوں گے ٹی وی اداروں نے ڈنڈیاں بھی ماری ہوں گی۔
اگر سنہ 2017 میں ٹی وی کو کل 81 ارب روپے میں سے 38 ارب روپے کے اشتہارات وفاقی حکومت، موبائیل فون کمپنیوں، ہاؤسنگ سوسائٹیز، تعلیم، بینکس اور ادویات بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے آئے۔ ہو سکتا ہے کہ ٹی وی چینلز نے ان کمپنیوں کے خلاف ایک بھی خبر نہ لگائی ہو۔
ہو سکتا ہے کہ کسی صحافی نے مبینہ طور پر سیاست دانوں یا اداروں سے سازباز کر کے مال کمایا ہو بیرون ملک جائیدادیں بنائیں ہوں۔ کوئی کسی ادارے یا شخصیت کا ترجمان بن گیا ہو۔ کسی نے پلاٹ کی فائل اونے پونے خرید کر سونے کے بھاؤ بیچی ہو۔ کسی سے کچھ نہ بن پڑا تو اس نے کھوکھا ہی الاٹ کرا لیا ہو۔ لیکن ایسے صحافیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں۔ زیادہ تر تو قلیل تنخواہ میں صحافت عبادت سمجھ کے ہی کرتے رہے۔
یہ صحافیوں کی لیاقت اور پیشہ ورانہ فراست ہی تھی کہ انہوں نے ملکی تاریخ میں پہلی بار طاقتور ترین اداروں اور اشرافیہ کو عوام کی عدالت میں لا کھڑا کیا۔ گمشدہ افراد پر ناصرف بات ہوئی بلکہ کئی بازیاب بھی ہوئے۔ آج جو لوگ دھڑلے سے اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہ شعور کہاں سے آیا؟ ٹی وی نے معاشرے میں مساوات، شفافیت اور برداشت پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ صحافی ہی تھے جنہوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کے پولیس کے ظلم، کچہری کے ڈاکے، مسیحا کی سفاکی اور رشوت گردی کے خلاف آواز بلند کی۔ براہ راست نیوز کا حکومت پر اتنا دباؤ پڑا کہ انہیں لوگوں کو فوری انصاف دینا ہی پڑا۔
ناصرف مافیاز بےنقاب ہوئے بلکہ میڈیا نے ملک کا کیس بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی جان فشانی سے لڑا۔ اب اگر ریاست ہی سستی دکھائے تو میڈیا کیا کرسکتا ہے۔ یہ ٹی وی ہی تھا جس نے کمال جرات سے حزب اختلاف کا موقف بھی پیش کیا۔ مخالفین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سیاست دانوں کو ہوائی قلعے تعمیر کرنے کے فن میں یکتا انہی اینکروں نے کیا۔ کئی مخالفین کا اصرار ہے کہ وزیر اعظم نے اقتدار میں آتے ہی میڈیا کا ناطقہ اس لیے بند کیا کہ کہیں اینکر ان کے ہوائی قلعوں کو پھونک سے نہ اڑا دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ظاہر ہے کہ یہ ان لوگوں کی رائے ہے جو وزیر اعظم کی شہرت سے جلتے ہیں لیکن اس بات میں اس حد تک صداقت ضرور ہے کہ گذشتہ 20 سال میں میڈیا نے اتنا بحران کبھی نہیں دیکھا جتنا موجودہ دور حکومت میں۔
گو کہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی میڈیا کے واجبات یہ کہہ کر روکے کہ چوں کہ گذشتہ حکومتوں نے اشتہارات ذاتی تشہیر کے لیے دیئے ہیں اس لیے سرکاری خزانے سے ان کی ادائیگی بدعنوانی کے زمرے میں آتی ہے۔ لیکن مالکان نے اس بات کو جواز بنا کر کہ حکومت ادائیگیاں نہیں کر رہی۔ صحافیوں کی تنخواہیں روک لیں۔
سن 2001 سے 2018 تک مالکان کھربوں روپوں کے منافع کما چکے تھے وہ ملازمین کو سالوں تک تنخوائیں ادا کرسکتے تھے لیکن اب مالکان سے کون پوچھے۔ جس نے جرات کی اسے کان سے پکڑ کر باہر کر دیا۔ ملک کے کل 20 ہزار صحافیوں میں سے تین ہزار کے قریب کو کھڑے کھڑے نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔
جس کی نوکری بچ گئی اسے تنخواہ نہیں ملی۔ کچھ اداروں میں آج بھی مہینوں سے جبکہ چند دیگر اداروں میں ایک سال سے ملازمین کو تنخواہ نہیں ادا کی گئی۔ کسی نے قرض لیا، کسی نے ریڑھی لگائی، کسی نے تنور۔ لیکن دنیا بھر کے حقوق کے لیے لڑنے والے کے لیے کسی نے نہ آواز نہ بلند کی نہ ہی اس کی کہیں شنوائی ہوئی۔
پھر حکمران (وہ جو کوئی بھی ہیں) انہیں لگا کہ صحافی کرپٹ سیاست دانوں کے اشارے پر تنقید کر رہے ہیں۔ ریاست ماں ہوتی ہے لیکن ماں نے بڑبولے نافرمان بچے کو معاشی سختی کر کے فرماں برادر بنانے کی کوشش کی۔ چن چن کر سوال اٹھانے والے صحافیوں کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا۔ انہیں اس حد تک ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی اینکر یا کسی رپورٹر میں اتنی اخلاقی جرات نہ رہی کہ وہ اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے استحصال پر آواز اٹھا سکے۔
آج اگر میڈیا ملک میں ہر طرف دودھ اور شہر کی نہریں دکھا رہا ہے تو اس کی وجہ لیاقت کی کمی نہیں نہ ہی صحافیوں کے کیمرے کے عدسے روپے کی چکا چوند سے دھندلا گئے ہیں بلکہ انہیں اپنے اور اپنے بچوں کے معاشی قتل کا خوف ہے۔
آج سوشل میڈیا کے دور میں کچھ بھی کر لیں حقائق کو زیادہ دیر مسخ نہیں کیا جاسکتا۔ آج تک ہر حکمران یہی سمجھتا آیا ہے کہ وہ دھونس دھاندلی یا مذہب کے نام پر تنقید دبا دے گا لیکن صحافت پھر بھی زندہ ہے۔