وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی و رہنما پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) محسن داوڑ نے باقاعدہ طور پر گذشتہ روز ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس پارٹی کا اعلان محسن داوڑ نے اپنے فیس بک پیج پر ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کیا۔
پریس ریلیز میں لکھا گیا ہے کہ ’ضلع صوابی میں ایک اجلاس کے دوران اصولی طور پر ایک نئی سیاسی جماعت بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔‘
’یہ اجلاس پچھلے کچھ عرصے سے چلنے والے سیاسی مشاورتی عمل کی ایک کڑی تھی جس میں سیاسی جماعت بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ پارٹی کے نام اور منشور کا اعلان عنقریب کر دیا جائے گا۔‘
اس پارٹی میں محسن داوڑ کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر، عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنما جمیلہ گیلانی سمیت کچھ دیگر رہنما شامل ہوں گے۔
یاد رہے کہ آفرسیاب خٹک سمیت بشریٰ گوہر اور جمیلہ گیلانی کو عوامی نیشنل پارٹی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر نکال دیا تھا۔
نئی سیاسی جماعت پر تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
نئی سیاسی جماعت کے اعلان کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کاروں کے ساتھ بات کی ہے کہ جان سکے کہ کیا یہ نئی سیاسی جماعت پشتون خطے کے سیاسی ماحول میں کوئی تبدیلی رونما کر سکتی ہے اور کیا محسن داوڑ سیاسی جماعت اور پی ٹی ایم دونوں کا بیک وقت حصہ رہ سکیں گے؟
اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ ان کو نہیں لگتا کہ اس خطے میں مزید قوم پرست سیاسی جماعتوں کی گنجائش ہے کیونکہ پہلے سے موجود قوم پرست جماعتوں کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کا ثبوت عام انتخابات میں نتائج سے لگایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’محسن داوڑ کے ساتھ اس سیاسی جماعت میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا کوئی ووٹ بینک موجود نہیں ہے جب کہ عوام کی طرف سے ان کو وہ حمایت بھی ملتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ افراسیاب خٹک اور دیگر کو عوامی نیشنل پارٹی سے نکال دیا گیا لیکن اے این پی کے ورکروں کی جانب سے کسی قسم کا رد عمل سامنے آیا اور نہ ان کی حمایت میں کوئی مظاہرہ دیکھا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ وقت بتائے گا کہ پی ٹی ایم کی جانب سے معاملات پر جو سخت ردعمل دیکھا گیا ہے کہ وہ اس سیاسی جماعت کا ہو گا یا نہیں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی ایم سے بھی محسن داوڑ کے حمایتی اس نئی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں گے۔ تاہم مجھے اس نئی جماعت کا مستقبل اتنا روشن دکھائی نہیں دیتا۔
گزشتہ چار دہائیوں سے خیبر پختونخوا کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار محمد ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محسن داوڑ کی سیاسی جماعت کا حصہ بننے والے اہم چہرے ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ رہ چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو اب پارٹی سے نکالا جا چکا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پشتون خطے کی سیاست میں عوامی نیشنل پارٹی کا ایک اہم کردار ہے کیونکہ یہ اس صوبے کی پرانی جماعت ہے اور یہی پارٹی پشتون قوم پرست جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تاہم جو لوگ عوامی نیشنل پارٹی سے نکل کر محسن داوڑ کی پارٹی کا حصہ بن رہے ہیں، یہ ماضی میں بھی اس طرح کی الگ جماعتیں بنا چکے ہیں۔
ریاض نے بتایا ’افراسیاب خٹک اے این پی میں رہے اور وہ اس جماعت کے ایک سر کردہ رہنما تھے لیکن وہ بھی ماضی میں اے این پی سے راستے جدا کر کے قومی انقلاب پارٹی نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت بنا چکے تھے جس کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔ حتیٰ کہ اے این پی کے اپنے گھر میں بیگم نسیم ولی خان نے اے این پی سے جدا ہو کر اپنی سیاسی جماعت بنائی تھیں لیکن وہ آگے نہیں جا سکی۔‘
محمد ریاض نہیں سمجھتے کہ اس خطے میں کسی نئی قوم پرست جماعت کو لوگوں کی جانب سے جگہ مل سکے۔ انھوں نے بتایا کہ غالب گمان یہی ہے کہ محسن داوڑ کی پارٹی قبائلی اضلاع پر نظریں مرکوز رکھے گی لیکن وہاں پر پہلے سے مختلف سیاسی جماعتیں مضبوط ہیں۔
انھوں نے بتایا ’جنوبی اضلاع کی بات کی جائے تو وہاں پر مذہبی جماعتیں بالخصوص جمعیت علما اسلام مضبوط ہے جب کہ باجوڑ اور دیر کے علاقوں میں جماعت اسلامی کے حمایتی موجود ہیں۔ اسی طرح ضلع خیبر میں بھی مذہبی رجحان پایا جاتا ہے اور زیادہ تر جھکاؤ مذہبی جماعتوں کی طرف ہے۔‘
محسن داوڑ کی رائے
نئی سیاسی جماعت کے اعلان کے بعد محسن داوڑ سے جب پوچھا گیا کہ پہلے سے اتنی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں تو کیا آپ کی سیاسی جماعت اپنے لیے جگہ بنا پائے گی؟ اس کے جواب میں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس پورے خطے میں ایک سیاسی خلا موجود ہے اور یہاں قوم پرست جماعتوں کی سیاست کچھ خاص لوگوں تک محدود ہوگئی ہے جس میں جمہوری طریقے سے فیصلے نہیں کیے جاتے۔
انہوں نے بتایا کہ اسی خلا کو بھرنے کے لیے ’نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ہم نے رکھی ہے اور اس میں شامل رہنماؤں کا ماضی میں سیاست میں کیا کردار رہا، وہ الگ بات ہے لیکن ابھی ہم امید سے میدان میں اتر رہے ہیں تاکہ جمہوری سوچ اور اس خطے کی سیاست میں حصہ ڈال سکیں‘۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محسن داوڑ نے بتایا کہ ’ماضی میں اگر کسی نے اس طرح کی کوشش کی ہے اور اپنی سیاسی جماعت بنائی ہے، تو اس لیے کامیاب نہیں ہوئے کہ اس وقت کمیونیکیشن کا نظام اچھا نہیں تھا اور لوگوں تک بیانیہ درست طریقے سے نہیں پہننچتا تھا۔‘
'اب کمیونیکیشن نظام مضبوط ہے اور اگر سیاسی جماعت بہتر اور جمہوری طریقے سے اپنا پیغام ترتیب دے کر لوگوں تک پہنچائے تو لوگوں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پی ٹی ایم کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اس سیاسی خلا کو بھرنے کے لیے وہ آگے آئے تو لوگوں نے ان کو سپورٹ کیا کیونکہ لوگ پہلے سے موجود قوم پرست جماعتوں سے نالاں نظر آرہے ہیں۔‘
محسن نے بتایا کہ یہ سیاسی جماعت بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر پی ٹی ایم میں کوئی شخص سیاست میں حصہ لینا چاہے تو اسی سیاسی پلیٹ فارم سے جمہوری طریقے سے سیاست میں حصہ لے سکے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ بات میں واضح کر دوں کہ اس جماعت کی رہنمائی نوجوان کریں گے اور جسے بھی سیاست میں آنے کا شوق ہو تو یہ پلیٹ فارم ان کے لیے موجود ہوگا۔‘