اقوام متحدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان افغانستان سے شورش ختم کرنے اور کابل حکومت سے مذاکرات کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعے کو اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک نئی رپورٹ میں عالمی تنظیم کے ماہرین نے خبردار کیا کہ طالبان افغانستان میں تشدد کی سطح کو کم کرنے اور حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں پیش رفت میں ناکام رہے۔
تاہم افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مئی کے اوائل میں عرب نیوز کو بتایا تھا کہ طالبان افغانستان میں اجارہ داری نہیں چاہتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان عوام میں اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے کی قوت ارادی اور آزادی حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان افغان بحران کو بات چیت سے حل کرنے کے خواہش مند ہیں اور یہ کہ وہ کابل اور واشنگٹن کو ’امن عمل میں رکاوٹوں‘ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان 2021 میں ’غیر معمولی تشدد‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی عسکری پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
ماہرین کے پینل نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق طالبان افغانستان میں ہونے والے تشدد کی بڑی کارروائیوں کے لیے ذمہ دار قرار دیے گئے ہیں جن میں سرکاری اہلکاروں، خواتین، انسانی حقوق کے رضاکاروں اور صحافیوں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عسکریت پسندوں کے یہ حملے ’حکومت کی صلاحیت کو کمزور کرنے اور سول سوسائٹی کو دھمکانے کے مقصد کے ساتھ کیے گئے۔‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجی گئی 22 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں پینل نے مزید کہا کہ 11 ستمبر تک امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا سے فوجی ساز و سامان میں کمی اور فضائی کارروائیاں محدود ہو جائیں گئی جس سے افغان افواج کو نئے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ان کی تربیت میں بھی خلل کا اندیشہ ہے۔
واشنگٹن نے طالبان کے ساتھ گذشتہ سال فروری میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد امریکی فوجیوں کا انخلا اور دو دہائیوں پر مشتمل اس جنگ کا خاتمہ کرنا تھا۔
طالبان اور افغان نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز پچھلے سال ستمبر میں قطر میں ہوا تھا اور یہ اس سال کے شروع تک جاری رہا لیکن طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک کہ تمام غیر ملکی افواج ملک سے نہیں نکل جاتیں وہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی بھی کانفرنس میں حصہ نہیں لیں گے۔
امریکی ماہرین بھی انخلا کے بعد افغانستان میں مزید تشدد کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کی بیان بازی اور موسم بہار کے لڑائی کے لیے ان کی فعال تیاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ اپنی عسکری کارروائیوں میں اضافہ کرے گا۔
ماہرین نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ افغان فورسز اتحادیوں کی مدد کے بغیر کس طرح ان کا مقابلہ کریں گی۔
انہوں نے کہا افغان فورسز نے بین الاقوامی اتحاد کے فضائی آپریشنز کی مدد سے طالبان کی بہت سی کامیابیوں کو ناکام بنایا لیکن اس کے لیے انہیں بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا اور اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ افغان افواج غیر ملکی افواج کی مدد کے بغیر کس طرح کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔
ماہرین کے پینل نے افغانستان میں تشدد کی سنگین تصویر پیش کی، جس کے مطابق ملک میں گذشتہ سال امن کی زیادہ توقع تھی لیکن 2020 کے دوران تشدد کے واقعات بلند ترین سطح تک پہنچ گئے جہاں اس دوران 25 ہزار سے زیادہ حملے کیے گئے جو 2019 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دوحہ مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی تشدد میں اضافہ ہوا اور رواں سال سردیوں میں حملوں کی شرح 2020 میں بہار یا موسم گرما کے مقابلے میں زیادہ رہی۔
انہوں نے کہا 2021 میں موسم سرما کے دوران غیر معمولی تشدد دیکھا گیا جہاں یکم جنوری سے 31 مارچ کے درمیان ملک بھر میں سات ہزار 177 حملے ریکارڈ ہوئے جو 2020 میں اسی عرصے کےدوران 61 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
پینل نے کہا کہ طالبان جنگجوؤں کی تعداد بڑھی ہے جس کا تخمینہ لگ بھگ 58 ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اس سال غیر ملکی افواج کے انخلا سے پہلے پاکستان افغانستان میں سیاسی تصفیے پر زور دے رہا ہے تاکہ اس کے مغربی ہمسایہ ملک میں خانہ جنگی کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔
عمران خان نے روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا: ’اس وقت پاکستان میں بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ امریکیوں کے انخلا سے پہلے ہی افغان مسٔلے کا کوئی نہ کوئی سیاسی تصفیہ نکل آئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم نے کہا کہ ’جب امریکیوں نے افغانستان سے انخلا کی حتمی تاریخ دی تو طالبان کو لگتا ہے کہ وہ جنگ جیت چکے ہیں، امریکہ کے اس فیصلے کے بعد طالبان سے مراعات حاصل کرنا آسان مشکل ہو گیا ہے۔‘
عمران خان نے کہا کہ اگر خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کا بحران پیدا ہوا تو افغانستان کے بعد پاکستان کو اس کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔
’اور پھر ہم پر دباؤ ہوگا کہ ہم اس میں کود پڑیں اور اس کا حصہ بنیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے پاکستان میں کئی دہائیوں سے جاری پالیسی میں افغانستان میں ’سٹریٹجک ڈیپتھ‘ پر زور دیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہاں ایک دوستانہ حکومت موجود ہو۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان عوام کی طرف سے منتخب کردہ کسی بھی افغان حکومت سے معاملات طے کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو ’افغانستان میں کسی بھی قسم کی جوڑ توڑ کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔‘