برطانوی محکمہ مالیات کے چانسلر رشی سونک نے کہا ہے کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے گروپ جی سیون کے رہنمابڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کو زیادہ انکم ٹیکس دینے پر مجبور کرنے کے لیے'تاریخی معاہدہ 'کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ ٹیکس برطانیہ میں بھی وصول کیا جائے گا۔سونک کا کہنا تھا کہ معاہدہ 'اس امر کو یقینی بنائے گا کہ درست کمپنیاں درست مقامات سے درست ٹیکس ادا کریں۔'
یہ پیشرفت زیادہ تر امریکی صدر جوبائیڈن کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس سے پہلے بڑی ٹیک فرموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ٹیکس سے بچنے کا عمل ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں کئی سال تک بے سود ثابت ہوئی تھیں۔اب یہ کمپنیاں کارپوریشن ٹیکس کی شرح کے حساب سے کم ازکم15فیصد ٹیکس دینے پر مجبور ہوں گی تاہم مستقبل میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہو گا۔حقیقت میں بائیڈن نے21 فیصد ٹیکس کی تجویز دی تھی۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تقریباً 100 سب سے بڑی کمپنیوں جن میں گوگل، فیس بک،ایمزون اور مائیکروسافٹ کو شامل کیے جانے کا امکان ہے، کا 20 فیصد منافع نئے سرے سے مختص کرتے ہوئے ان ملکوں کو دیا جائے گا جہاں کاروبارہوا۔ بڑی کمپنیوں سے زیادہ ٹیکس لینے کا مقصد 'آف شورنگ' (ٹیکس سے بچنے کے لیے کاروبار کی ایک سے دوسرے ملک منتقلی)کا خاتمہ جس کی بدولت کمپنیاں ان ملکوں میں قانونی ادارے قائم کر لیتی ہیں جہاں ٹیکس کم ہے۔اس عمل میں یہ خیال نہیں رکھا جاتا کہ حقیقت میں کمپنیاں کہاں سے پیسہ کما رہی ہے۔
سونک کا کہنا تھا کہ معاہدے سے ٹیکس سے بچنے کے لیے چنے گئے مقامات اور ٹیکس نہ دینے والی ڈیجیٹل کمپنیوں کے مسائل حل ہوں گے۔ان کے بقول: 'ہم معاملات کو سیدھا کرنے جا رہے ہیں۔' برطانوی دارالحکومت لندن میں جی سیون کے وزرائے خزانہ کے اجلاس کے بعد انہوں نے کہا کہ نئے اقدامات ٹیکس نظام کو'عالمی ڈیجیٹل دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں گے۔'انہوں نے کہا کہ'یہ برطانوی ٹیکس دہندگان کے لیے بڑا انعام ہے۔'
لیبرپارٹی نے15 فیصد ٹیکس پر تنقید کرتے ہوئے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ایک بہتر معاہدے کی'امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔'شیڈو چانسلر ریچل ریوز نے کہا ہے کہ'اس سے ہماری این ایچ ایس(نیشنل ہیلتھ سروسز)اور دوسری عوامی خدمات کے لیے ہفتہ وار 13 کروڑ10 لاکھ پاؤنڈ اضافی ملتے جبکہ ہماری کاروباری سرگرمیوں میں جارحانہ گراوٹ کو بھی روکتا۔' اس کے باوجود سونک نے'بڑے قابل فخر لمحے'کو سراہا ہے اور 'اس تاریخی معاہدے کے لمحے تک پہنچنے کے لیے مل کر کام کرنے پررضامندی پر ساتھی رہنماؤں کی تعریف کی جس معاہدے کی بدولت بالآخر ہمارا ٹیکس نظام21ویں صدی میں داخل ہو گیا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے سکائی نیوز سے بات چیت میں 21فیصد ٹیکس پر زور نہ دینے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے: 'سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آج یہاں جو معاہدہ ہوا ہے اس میں کم ازکم15 فیصد ٹیکس کی بات کی گئی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹنا بنتا تھا۔ یہ ایسا معاملہ جس پرتقریباً ایک دہائی تک بات ہوتی رہی ہے۔' چانسلر نے کہا کہ برطانوی عوام جاننا چاہتے تھے کہ 'حالات سب کے لیے ایک جیسے ہیں۔'خواہ وہ ٹیکس سے بچنے کے موزوں مقامات پر رہ کام کرنے والے لوگ ہوں یا بڑے، خاص طور پر آن لائن کاروبار کرنے والے ادارے جنہیں درست مقامات پر ٹیکس سے بچنے کا موقع میسر تھا۔'
’یہ وہ بات ہے جس کی ہمیں اس معاہدے نے سہولت فراہم کی ہے اور جی سیون کے ساتھیوں نے اس پر اتفاق کیا ہے۔ایک بار جب ہم نے اس معاہدے میں توسیع کر دی اور اس کا اطلاق عالمی سطح پر ہو گیا تو یہ برطانوی ٹیکس دہندگان کے لیے بہت بڑا انعام ہوگا۔'
اس اعلان کی خوشی اس حقیقت کے پیش نظر ماند پڑ گئی کہ بائیڈن نے21 فیصد ٹیکس کی جو تجویز دی تھی اسے ترک کر دیا گیا۔صرف تین ترقی یافتہ ممالک میں جن میں آئرلینڈ شامل ہے کارپوریشن ٹیکس کی شرح15 فیصد سے کم ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ اس وقت صرف جی سیون ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا ہے۔ یہ معاہدے جی 20 ممالک کے بڑے گروپ کے اجلاس سے پہلے ہوا ہے۔ اس گروپ میں چین اور بھارت کی طرح کے ملک شامل ہیں۔
عالمی امور کے لیے فیس بک کے نائب صدر نِک کلیگ نے کہا کہ یہ سودا کاروبار کی یقین دہانی میں اضافے اور عالمی ٹیکس نظام پر عوام کا اعتماد بڑھانے کی طرف ایک بڑا قدم تھا، لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ اس سے کمپنی کو لاگت آئے گی۔
برطانیہ کے سابق نائب وزیراعظم نے ٹوئٹر پر کہا: 'ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی ٹیکس اصلاحات کا عمل کامیاب ہو اور اس کو تسلیم کیا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ فیس بک کو مختلف جگہوں پر زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑسکتا ہے۔'
دوسری جانب ایمازون کے ترجمان نے کہا: 'ہمیں یقین ہے کہ او ای سی ڈی کے زیرقیادت ایک ایسا عمل، جس سے ایک کثیرالجہتی حل پیدا ہوتا ہے، اس سے بین الاقوامی ٹیکس نظام میں استحکام لانے میں مدد ملے گی۔ جی سیون کا معاہدہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش میں ایک خوش آئند قدم ہے۔'
© The Independent