پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات جولائی کے آخر میں متوقع ہیں اور فی الحال سیاسی جوڑ توڑ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
جولائی کے آخر میں متوقع انتخابات کے لیے اب تک تین جماعتوں کے 100 امیدواروں کو ٹکٹ جاری ہوئے جن میں صرف تین خواتین شامل ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق تحریک انصاف اور دوسری کا تعلق مسلم کانفرنس سے ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے کسی خاتون امیدوار کو نامزد نہیں کیا ہے۔
انتخابات کے شیڈول کا باقاعدہ اعلان ہونے سے قبل ہی چار میں سے تین بڑی سیاسی جماعتیں بیشتر حلقوں سے اپنے اپنے امیدوار نامزد کر چکی ہیں تاہم ان میں خواتین کا تناسب انتہائی کم ہے۔
تینوں جماعتوں کے امیدواروں کی مجموعی تعداد 100 ہے جبکہ ان میں صرف تین خواتین شامل ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے ابھی تک اپنے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا لیکن جماعت کے بعض عہدیداروں کو توقع ہے کہ ان کی جماعت بھی دو خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرے گی۔
آئندہ قانون ساز اسمبلی میں ارکان کی کل تعداد 53 ہو گی جبکہ گذشتہ اسمبلی میں یہ تعداد 49 تھی۔ 53 نشستوں میں سے 45 جنرل نشستوں پر بالغ رائے دہی کے اصول کے تحت براہ راست انتخابات ہوں گے۔
جنرل نشستوں میں سے 12 نشستیں پاکستان میں مقیم مہاجرین جموں وکشمیر کے لیے مختص ہیں۔ آٹھ مخصوص نشستوں میں سے خواتین کے لیے پانچ جبکہ علما و مشائخ، ٹیکنو کریٹس اور بیرون ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مختص ہے۔
ان مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخابات ہوتے ہیں اور جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدوار مخصوص نشستوں کے لیے امیدوار منتخب کرتے ہیں۔ خواتین کی ایک نشست پر نامزدگی کے لیے اسمبلی میں نو ووٹ جبکہ دیگر نشستوں کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
حالیہ انتخابات کی طرح ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں پر خواتین امیدواروں کو نامزد کرنے سے ہچکچاتی رہی ہیں اور زیادہ تر خواتین مخصوص نشستوں پر ہی منتخب ہو کر اسمبلی پہنچ پاتی ہیں۔ ماضی کی تمام اسمبلیز میں جنرل نشستوں پر براہ راست انتخابات جیتنے والی خواتین کی تعداد بھی انتہائی کم رہی۔
2016 میں ہونے والے انتخابات میں بھی کل 423 امیدواروں میں صرف آٹھ خواتین شامل تھیں جن میں سے تین آزاد امیدوار، دو پیپلز پارٹی، ایک مسلم لیگ ن، ایک مسلم کانفرنس اور ایک متحدہ جموں کشمیر نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر براہ راست انتخابات میں شامل ہوئی تھیں۔ ان آٹھ میں سے صرف ایک خاتون ہی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو سکی تھیں۔
تجزیہ کار خواتین کی سیاسی عمل میں عدم دلچسپی اور سیاسی شعبہ کا خواتین کے لیے ساز گار نہ ہونا اس کی وجہ بتاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر وقاص علی کوثر سیاسی امور کے ماہر ہیں اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے شعبہ گورننس اینڈ پبلک پالیسی کے سربراہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خواتین کی سیاسی نمائندگی انتہائی کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ خطے میں سیاسی جماعتوں کا بطور ادارہ پنپ نہ پانا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جماعتیں مقامی سطح پہ جمہوری رویے اور انٹرا پارٹی ڈیموکریسی سے کوسوں دور ہیں۔ بنیادی تنظیمی ڈھانچے کی کمزوریوں کے سبب سیاسی جماعتیں تربیت، سیاسی استعداد کاری، پالیسی سازی اور فکری تربیت کے بجائے برادری اور پارٹی رہنماؤں سے ذاتی تعلق کی بنیاد پر ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کے مختلف طبقات خاص طور پر خواتین مکمل طور پر نظر انداز ہو جاتی ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی آزاد جموں و کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جن خواتین نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے لیے درخواستیں دیں ان کا کوئی خاص سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ جبکہ مقابلے میں ان حلقوں سے مضبوط امیدوار موجود تھے جو کئی سالوں سے پارٹی سے وابستہ ہیں اور عملی طور پر میدان میں کام کر رہے ہیں۔
چوہدری لطیف اکبر کا کہنا ہے، ’یہ تاثر درست نہیں کہ پیپلز پارٹی خواتین کو ٹکٹ جاری نہیں کرتی بلکہ ہماری تو جماعت ہی ایک خاتون رہنما محترمہ بےنظیر بھٹو کی پیروکار ہے۔‘
دارالحکومت مظفر آباد کی نشست سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے لیے درخواست دینے والی ماریہ اقبال ترانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں خواتین کے سیاست میں حصہ لینے اور خاص طور پر ان انتخابات لڑنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
ماریہ اقبال ترانہ کے مطابق: ’خواتین کا کردار محض ووٹ ڈالنے تک محدود ہے اور اگر کوئی عام آدمی یا عورت انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کرے تو اسے سیاسی جماعتوں کے علاوہ معاشرتی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔‘
وہ سمجھتی ہیں کہ جنرل نشستوں پر خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن سیاسی جماعتیں خواتین کارکنوں کی تربیت اور انہیں آگے آنے کا موقع دینے میں ناکام رہی ہیں۔‘
ماریہ کہتی ہیں کہ ’ 21 ویں صدی کے 21 ویں سال میں بھی عورتوں کو اپنا حق مانگنے کے لیے شور مچانا پڑتا ہے، جو عورت اپنی ایک رائے رکھتی ہے اسے ہمیشہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نےکہا: ’کشمیری عورت کا لباس پھیرن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ صدیوں سے عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر تیں تھیں مگر افسوس آج کے مرد صرف عورتوں کو چار دیواری تک محدود کرنے میں مصروف ہیں۔‘
ڈاکٹر وقاص کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں میں خواتین ونگز محض برائے نام ہیں، پالیسی اور فیصلہ سازی میں خواتین ونگز کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈاکٹر وقاص کے مطابق: ’تقریباً 50 فیصد آبادی کو ایک اقلیت کے طور پر دیکھنا اور ان کو محض مختص نشستوں پہ جگہ دینا دراصل انہیں عملی سیاست سے لاتعلق کردینے کے مترادف ہے۔‘
جموں و کشمیر ڈیموکریٹک پارٹی نامی نسبتاً نئی اور غیر معروف سیاسی جماعت کی سربراہ نبیلہ ارشاد ڈاکٹر وقاص علی کوثر سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اقتدار پر قابض رہنے والی سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کوئی عام آدمی، خاص طور پر خواتین ایوان اقتدار تک نہ پہنچ سکیں۔
ان کے مطابق: ’سیاسی جماعتوں پر دادا، باپ اور پوتا قابض رہتے ہیں۔ جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں تو جمہوری رویے کیسے پروان چڑھیں گے اور عام کارکنان کو کیسے موقع ملے گا؟ جو خواتین عملی سیاست میں آتی ہیں ان کا تعلق لازماً کسی سیاسی یا سرمایہ دار خاندان سے ہوتا ہے۔ مخصوص نشستوں پر نامزدگی میں عموماً اسی اصول کے تحت ہوتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ سیاست پر قابض خاندانوں سے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عام لوگوں کی سیاسی تربیت کی جائے اور انہیں شعور دیا جائے اور ان کی جماعت کے قیام کا بنیاد مقصد ہی یہی ہے۔
چوہدری لطیف اکبر نے کہا: ’ہر جماعت الیکشن جیتنے کی خواہشمند ہوتی ہے اور وہ بہتر سے بہتر امیدوار نامزد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس لیے امیدوار نامزد کرتے وقت صنفی بنیادوں پر فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ امیدوار کی قابلیت اور عوام کے ساتھ اس کے تعلق کو پیمانہ بنایا جاتا ہے۔‘