جنگی جرائم کی سماعت کرنے والی عدالت نے منگل کو بوسنیائی سرب سابق فوجی سربراہ راتکو ملادچ کو نسل کشی کے جرم میں ملنے والی عمر قید کی سزا برقرار رکھی ہے۔
انہیں یہ سزا 1992 سے 1995 تک جاری رہنے والی بوسنیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر نسل کشی کے جرم میں سنائی گئی تھی۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد بدترین خونریزی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کے ٹریبیونل نے 2017 میں سنائی گئی عمر قید کی سزا کے خلاف راتکو ملادچ کی اپیل مسترد کر دی ہے۔
’بوسنیا کا قصاب‘کے نام سے پہچانے جانے والے بھاری بھرکم سابق جنرل نے، جن کی عمر تقریباً 79 سال ہے، ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیٹھ کر ہیڈفون کے ذریعے عدالت کا فیصلہ سنا۔ پریذائیڈنگ جج پرسکا نایامبے نے یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
ہیگ میں قائم ٹریبیونل کے بیان میں کہا گیا: ’اپیل کی سماعت کرنے والی عدالت نے ٹرائل کورٹ کی طرف سے ملادچ کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔‘
پانچ ججوں پر مشتمل عالمی ٹریبیونل کا فیصلہ حتمی ہے اور اب اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی۔ یہ ٹریبیونل یوگوسلاویہ میں قائم جنگی جرائم کے ٹریبیونل کے کیسوں کو نمٹاتا ہے۔ یوگوسلاویہ کا ٹربیونل اب بند ہو چکا ہے۔
فیصلہ سنائے جانے کے موقعے پر ان تقریباً آٹھ ہزار افراد کی مائیں موجود تھیں جنہیں بوسنیائی سرب فوج کی سریبرینیتسا پر چڑھائی کے وقت قتل کر دیا گیا تھا۔ مارے جانے والوں میں زیادہ تر مسلمان مرد اور لڑکے شامل تھے۔ قتل عام کا شکار ہونے والوں کے لواحقین انصاف کے لیے طویل عرصے تک جدوجہد کرتے رہے ہیں۔
’سریبرینیتسا کی مائیں‘ نامی ایسوسی ایشنز میں سے ایک کی صدر منیرہ سوباسک نے عدالت کے باہر گفتگو میں کہا: ’آج کا دن تاریخی ہے۔ نہ صرف ہم ماؤں کے لیے بلکہ تمام بلکانی ریاستوں، یورپ اور دنیا کے لیے۔ وہ (ملادچ) ایک عفریت ہیں جنہیں 26 سال کے بعد بھی اس پر کوئی افسوس نہیں جو کچھ انہوں نے کیا۔ ان کی فوج جہاں کہیں گئی، جہاں ان کے بوٹ داخل ہوئے، انہوں نے نسل کشی کی۔‘
ملادچ کون ہیں؟
ملادچ سابق یوگوسلاوین صدر سلوبودان ملازووچ اور سابق بوسنیائی سرب رہنما رادووان کارادزچ کے ساتھ جابرانہ تکون کا فوجی چہرہ تھے۔ وہ اپنی گرفتاری سے قبل ایک دہائی تک مفرور رہے۔
ملادچ اقوام متحدہ کے زیر حفاظت سریبرینیتسا کے علاقے میں موجود مسلمانوں کی نسل کشی کے مرتکب پائے گئے تھے۔ یہ ان کی مسلمانوں کو اس علاقے سے باہر نکالنے کی مہم کا حصہ تھا۔
اس وقت کی ویڈیو فوٹیج میں انہیں بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد سریبرینیتسا میں موجود بچوں اور خواتین کو بسوں میں سوار کرکے لے جایا گیا جبکہ مردوں کو پیدل ہی قریبی جنگل میں لے جا کر قتل کر دیا گیا تھا۔
انہیں کمیونزم کے سقوط کے بعد اور یوگوسلاویہ کی تقسیم کے دوران گریٹر سربیا کی تشکیل کے لیے اہم علاقوں سے مسلمانوں اور بوسنیائی باشندوں کو نکالنے اور ’نسل کشی‘ کے الزامات کا بھی مرتکب پایا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس جنگ میں تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک جبکہ 22 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔
ملادچ اپنی عمر 78 سال بتاتے ہیں لیکن عدالت کے مطابق ان کی عمر 79 سال ہے، گذشتہ سال سماعت کے دوران وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ ’قسمت نے مجھے اپنے ملک کے دفاع کے لیے چنا تھا۔‘
ایک طویل تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’میں نیٹو اتحاد کا ہدف‘ رہا ہوں۔ انہوں نے اس عدالت کو بھی ’مغربی طاقتوں کا بغل بچہ‘ قرار دیا تھا۔
ان کی اپیل ان کے جگر کے علاج اور پھر کرونا کی وبا کے باعث مسلسل تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔ منگل کو ہونے والی عدالتی کارروائی کو بھی حفاظتی اقدامات کے تحت محدود رکھا گیا۔
متاثرین کے لیے اہم مقدمہ
ملادچ اس سرب تکون کا آخری حصہ ہیں جو انصاف کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملازووچ 2006 میں دی ہیگ میں جاری اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران ہی قید خانے میں دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہو گئے تھے جبکہ کارادزچ سریبرینیتسا میں نسل کشی کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید کاٹ رہے ہیں۔