انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے اپنے لیے صحافت کا انتخاب کیا۔ جنوبی اضلاع سے تعلق ہونے کی بنا پر سب نے مشورہ دیا کہ کوہاٹ یونیورسٹی میرے لیے بہترین انتخاب ہے۔
یہ درس گاہ میرے گھر سے 60 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ آج تقریبا چار سال سے میں کوہاٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوں اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہوں۔ سفر کرنے سے آج بھی مجھے اتنی ہی چڑ ہے جتنی بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق ہونے کی بنا پر لوکل ٹرانسپورٹ استعمال کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی اور کرتی بھی کیوں؟ میری طرح کئی لڑکیاں روز اس میں سفر کرتی ہیں۔
مجھے صبح سویرے لوکل وین لینی پڑتی تھی جسے عام زبان میں سوزوکی کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں سوچتے ہی مجھے کوفت محسوس ہوتی ہے۔ اس سوزوکی وین کی یہ خاصیت (پتہ نہیں کہنا چاہیے یا نہیں) کہ اس میں مرد اور خواتین ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کا درمیانی فاصلہ اتنا کم ہوتا ہے اور ایک جھٹکا لگنے سے آمنے سامنے بیٹھے لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں۔
اس سوزوکی وین کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ جن مرد حضرات کو اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی وہ اس کے پیچھے لٹک جاتے ہیں۔ مجھ جیسی لڑکیاں جو اکیلے سفر کرتی ہیں اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد ان مرد حضرات سے گزارش کرتی ہیں کہ بھائی صاحب ہمیں اترنے کا موقع دیں۔ اسی اثنا میں سیٹ سے اٹھتے ہوئے سامنے والے بھائی سے ٹکرانا تو اس طرح لازمی ہے جس طرح مطالعۂ پاکستان کا مضمون ہر ڈگری میں۔ اترتے وقت بھی یہی عمل ایک دو حضرات کے ساتھ ہو جانا معمولی بات ہے۔
کوہاٹ کی خراب سڑکوں پر اٹھکیلیاں کرتی ان سوزوکیوں کو دیکھ کر میرے دماغ میں کئی خیالات نے جنم لیا۔ میں نے ہمیشہ سے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کو بہت سی چیزوں سے محروم دیکھا ہے، چاہے وہ گیس اور بجلی کا معاملہ ہو یا پھر سفری سہولیات۔ معدنیات اور ذخائر سے مالا مال یہ اضلاع اپنی بدقسمتی کا رونا کئی برسوں سے رو رہے ہیں لیکن آج تک حقیقی معنوں میں ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔
آئے دن اخبارات میں یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ کبھی مردان میں خواتین کے لیے پنک بسوں کا آغاز تو کبھی ایبٹ آباد میں خواتین کے لیے یہی سہولت۔ لیکن اس کو میں بدقسمتی کہوں یا پھر نااہلی کہ جنوبی اضلاع کی خواتین کے لیے نہ تو اعلانات کیے جاتے ہیں اور نہ ہی مطالبات سنے جاتے ہیں۔ اکثر شہروں میں خواتین کے لیے الگ جگہ مختص ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیں وہ بھی میسر نہیں۔
ایک ’باعزت معاشرے‘ میں رہتے ہوئے ہمیں ان گاڑیوں میں چڑھتے اترتے ہوئے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ بغیر ٹکرائے کیسے اتریں؟
مجھ جیسی بہت سی خواتین کے لیے سفر کرنا ایک تلخ تجربہ اس وقت ثابت ہوتا ہے جب باقی مرد سواریوں کے ساتھ ساتھ ڈرائیور حضرات بھی اپنی ’گُھوریوں‘ سے نوازنا شروع کر دیتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ اس وقت جب کوئی خاتون فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ جائے۔ اس وقت ڈرائیور صاحب کو دنیا جہان کے عاشقی معشوقی والے گانے یاد آجاتے ہیں اور دنیا سے بےخبر کانوں کے پردے پھاڑ دینے کی حد تک آواز میں ان سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی حوالے سے جب میں نے باقی لڑکیوں سے بات کی جو روز پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی ہیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ کسی نے ڈرائیور حضرات کی بےجا نوازشوں کے قصے سنائے تو کسی نے مرد سواریوں کے بیہودہ اور معنی خیز کلمات کی داستانیں سنائیں۔
مجھے لوگوں سے اس بات پر اختلاف رہا ہے کہ جب وہ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے وہی گھسے پٹے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں کہ ’لڑکیوں کو ان کے خواب پورے کرنے دو‘ لیکن کیا یہ بات اس لحاظ سے نہیں کہنی چاہیے کہ لڑکیوں کو گھر کے باہر بھی ان کے حقوق دو؟
ان لڑکیوں کے حقوق کے بارے میں کون بولے گا جن کو ان کے گھر سے تو حقوق پورے ملتے ہیں لیکن گھر سے باہر قدم رکھتے ہی یہ احساس ہوجاتا ہے کہ زمانے کی گرم ہوا ان کے نازک خوابوں کو پگھلانے کی پوری تگ و دو میں لگی ہوئی ہے؟
حق صرف یہ نہیں ہے کہ پڑھائی اور نوکری کی اجازت ملنا بلکہ اس کے بعد معاشرے میں باعزت طریقے سے اپنی منزل تک پہنچنا بھی خواتین کا حق ہے۔ وہ جب گھر سے نکلے تو اس کو ہزار بار سوچنا نہ پڑے، جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو اس کی طرف اٹھتی نگاہیں اور اس تک پہنچتے کلمات سارا دن اس کا پیچھا نہ کریں۔
خواتین کو صرف آزادی ملنے سے ان کے حقوق پورے نہیں ہو جاتے بلکہ اس آزادی کے ساتھ ساتھ عزت ملنا بھی اس کا حق ہے۔ جب ٹرانسپورٹ میں بدتمیزی کی شکایت کی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ پھر گھر میں بیٹھ جاؤ۔ مردوں کی درستی کی کوئی بات نہیں کرتا۔ وہ اگر عورت سے بہتر سلوک کرنا سیکھ لیں تو یہ مسئلہ خودبخود حل ہو سکتا ہے۔
کیا گھر بیٹھنے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کام کے لیے جانے سے تو روکا جا سکتا ہے لیکن کچھ ضروریات زندگی ایسی ہیں کہ جس کے لیے نکلنا ہی پڑتا ہے۔
صرف خیبر پختونخوا میں نہیں بلکہ تمام خواتین کے لیے ایک صاف ستھرے، باعزت اور محفوظ ٹرانسپورٹ نظام کی سخت ضرورت ہے بلکہ ملک کی معاشرتی اور معاشی ترقی کے لیے بھی یہ سب انتہائی ضروری ہے۔
خواتین کے لیے آسان سفری سہولیات کا مطالبہ حکومت سے تو کرتے ہی رہتے ہیں لیکن کیا ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اگلی بار عورت مارچ میں ’کھانا خود گرم کرو‘ کے پلے کارڈ کی بجائے ’مجھے عزت سے اترنا ہے‘ کا پلے کارڈ بھی اٹھا لیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈپینڈنٹ اردو خواتین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی ایسے واقعے کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس مقصد کے لیے لکھی گئی تحریر اس ای میل ایڈریس پر بھیجی جا سکتی ہے؛