حالیہ دنوں میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے مختلف جرائم میں انتہائی مطلوب افراد کے کوائف پر مشتمل ’ریڈ بک‘ کا نواں ایڈیشن جاری کیا ہے۔
سی ٹی ڈی سندھ کے سربراہ عمر شاہد حامد کے مطابق اس ایڈیشن میں مختلف شدت پسند تنظیموں سے وابستہ 146 افراد کے نام شامل کیے گئے ہیں جن میں سے 93 نام نئے ہیں۔
ریڈ بک کی فہرست کے حصہ اول میں سنی شدت پسند تنظیموں بمشول القاعدہ اور القاعدہ برصغیر کے 18 شدت پسندوں، شام اور عراق میں لڑنے والے شدت پسند گروہ داعش کے 12، تحریک طالبان پاکستان کے 23، انصار الشریعہ کے چار، لشکر جھنگوی یا سپاہ صحابہ کے 13 اور جنداللہ کے دو شدت پسند شامل ہیں۔
حصہ دوئم میں شیعہ شدت پسند تنظیموں کے 42 افراد کے نام شامل ہیں جبکہ حصہ سوئم میں سندھودیش لبریشن آرمی (ایس آر اے) کے چار، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے پانچ اور لیاری گینگ وار کے 32 عسکریت پسندوں کے نام شامل ہیں۔
ریڈ بک کے نویں ایڈیشن میں خاص بات کیا ہے؟
عمر شاہد حامد کے مطابق نئے ایڈیشن میں پہلی بار کسی لسانی شدت پسند تنظیم سے وابستہ شدت پسندوں کے نام شامل کیے گئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عمر شاہد حامد نے بتایا کہ ریڈ بک کے سات ایڈیشنز میں صرف مذہبی انتہا پسند تنظیموں سے منسلک افراد کو شامل کیا گیا تھا۔ مگر 2017 میں آٹھویں ایڈیشن میں لیاری گینگ وار سے منسلک افراد کو بھی شامل کیا گیا۔
’اب نویں ایڈیشن میں لسانی تنظیموں (ایس آر اے) اور (بی ایل اے) کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں۔ کیوں کہ ایسے ٹھوس ثبوت ملے ہیں کہ یہ تنظیمیں بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے علاوہ دیگر غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیز کے تعاون سے دہشت گردی میں ملوث ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ 18 سالوں میں مذہبی انتہا پسندی کا دور دورہ تھا مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ لسانی اور دیگر تنظیمیں بھی انتہاپسندی میں ملوث ہورہی ہیں تو انسداد دہشت گردی پولیس نے انھیں بھی ریڈ بک میں شامل کرنا شروع کیا ہے۔
ریڈ بک کیا ہے اور اس میں کون لوگ شامل کیے جاتے ہیں؟
سی ٹی ڈی سندھ کے ایس ایس پی آپریشنزعارف عزیز کے مطابق ریڈ بک ایک سرکاری دستاویز ہے جس میں ان خواتین و حضرات کے نام شامل کیے جاتے ہیں جو پولیس، سی ٹی ڈی یا دیگر ایجنسیز کو انتہائی مطلوب ہوں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عارف عزیز نے بتایا کہ ’سی ٹی ڈی کی ایک خاص کمیٹی ہے جو دہشت گردی میں ملوث افراد کا جائزہ لیتی ہے کہ یہ افراد ملک اور شہریوں کے لیے کتنے خطرناک ہیں؟ اس کے بعد ہی ان کے نام ریڈ بک میں شامل کیے جاتے ہیں۔‘
عمر شاہد کے مطابق جو افراد براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہیں یا پھر جن پر ملوث ہونے کا شبہ ہے انٹلیجنس اداروں کی رپورٹ پر ان کے نام اس ریڈ بک میں شامل کیے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق ’جرائم کی کئی اقسام ہیں۔ کوئی چوری میں ملوث ہوتا ہے تو کوئی گاڑیاں چھیننے کا جرم کرتا ہے مگر وہ تمام لوگ ریڈ بک میں شامل نہیں کیے جاتے۔ حتیٰ کہ کچھ بدنام زمانہ ڈاکو ہیں جن کے سروں کی قیمت لاکھوں روپے رکھی ہوئی ہے مگر ان کے نام ریڈ بک میں نہیں۔ کیوں کہ اس فہرست میں نام تفصیلی جائزے کے بعد شامل کیے جاتے ہیں کہ وہ افراد کتنے خطرناک ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریڈ بک میں کسی شدت پسند کا نام شامل کرنے کا مقصد پولیس، مختلف ایجنسیز اور عوام الناس کو آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کتنے خطرناک ہیں اور ریڈ بک میں شامل ہونے کے بعد ان کی گرفتاری میں آسانی ہوتی ہے۔
ریڈ بک میں شامل افراد کے مکمل نام، تصویر، عرفیت یا کوئی اور نام جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں، تاریخ پیدائش، شناخت کی نشانی، ولدیت، جسمانی اور چہرے کی ساخت، وہ کون سی زبانیں بولتے ہیں، آنکھوں کا رنگ، تکیہ کلام، بال رکھنے کا طریقہ، تعلیم، انداز گفتگو، قد، قومی شناختی کارڈ نمبر، پاسپورٹ نمبر اور دیگر تفصیلات لکھی جاتی ہیں۔ اگر ان کی تصویر موجود نہ ہو تو ان کا خاکہ شامل کیا جاتا ہے۔
عمر شاہد حامد کے مطابق ’ریڈ بک میں شامل چند افراد کی گرفتاری میں مدد کرنے والوں کے لیے انعام بھی رکھا جاتا ہے۔ یہ رقم 30 لاکھ روپے تک ہوسکتی ہے۔
’فہرست میں شامل ہر فرد کی گرفتاری کے لیے رقم نہیں رکھی جاتی بلکہ انتہائی مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔‘
ریڈ بک میں ہر سال ترمیم کی جاتی ہے تاکہ اگر کوئی ملزم گرفتار ہوجائے یا فوت ہوجائے تو اس صورت میں ان کا نام فہرست سے ہٹا دیا جائے۔