ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ جنوبی کوریا میں رضامندی کے بغیر خواتین اور لڑکیوں کی جنسی تصاویر کا وسیع پیمانے پر شیئر کیا جانا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے کیے گئے اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے سے متاثرہ خواتین پر ’تباہ کن‘ اثرات مرتب ہورہے ہیں نیز انہیں خطرہ ہے کہ ’تصاویر کا یہ پھیلاؤ بے قابو ہو سکتا ہے۔‘
جنوبی کوریا میں اس وقت ’سپائے کیم پورن‘ نے ایک وبا کی شکل اختیار کرلی ہے، جس میں عام طور پر مرد ٹوائلٹ، چینجنگ رومز اور ہوٹلوں جیسے مقامات پر خواتین کی مرضی کے بغیر خفیہ طور پر جنسی عمل کی فلم بندی کرتے ہیں۔ اس کے بعد ’سائبرسیکس کرائم‘ سے حاصل شدہ فوٹیج رقم کے عوض فروخت کر دی جاتی ہے۔
لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی رپورٹ بعنوان ’مائے لائف از ناٹ یور پورن: ڈیجیٹل سیکس کرائم اِن ساؤتھ کوریا‘ میں انتقام کے لیے جنسی ویڈیوز کے ساتھ ساتھ ایڈٹ کی گئیں اور جعلی تصاویر کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
اس مطالعے کی مصنف ہیڈر بار کا کہنا ہے کہ ’ڈیجیٹل سیکس جیسے جرائم جنوبی کوریا میں اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ ان سے تمام خواتین اور لڑکیوں کا معیار زندگی متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’خواتین اور لڑکیوں نے ہمیں بتایا کہ وہ عوامی بیت الخلا استعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں اور عوامی مقامات اور حتیٰ کہ اپنے گھروں میں بھی خفیہ کیمروں کی موجودگی کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں۔ ڈیجیٹل سیکس سے متاثرہ خواتین کی خوفناک حد تک بڑی تعداد نے بتایا کہ انہوں نے خودکشی کرنے پر غور کیا ہے۔
ہیڈر بار، جو ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی عبوری شریک ڈائریکٹر بھی ہیں، نے مزید کہا: ’جو شخص کبھی بھی ان غیر مناسب تصویروں کو دیکھ چکا ہے وہ ان کا سکرین شاٹ لے سکتا ہے اور کسی بھی ویب سائٹ پر اس سکرین شاٹ کو کسی بھی وقت شیئر کرسکتا ہے، جس کی وجہ سے ایسی تصاویر کا پھیلاؤ بے قابو ہو سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانونی نظام میں اس حوالے سے متاثرین کو زیادہ مدد فراہم نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر ان جرائم کا شکار بننے پر مجبور ہیں۔‘
’سپائے کیم پورن‘ کے خلاف مہم چلانے والوں نے جنوبی کوریا کے انصاف کے نظام سے وابستہ عہدے داروں کو متنبہ کیا ہے کہ ’یہ نہایت سنگین جرائم ہیں‘ جن کو وہ عام طور پر سمجھنے یا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ نظام عدل میں غالب اکثریت مردوں کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ان جرائم کا شکار خواتین اور لڑکیاں انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خلاف لڑنے پر مجبور ہیں۔
محققین نے مزید کہا: ’پولیس اکثر متاثرین کی شکایات درج ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی بجائے ان کے ساتھ ناروا طریقوں سے پیش آتی ہے، نقصان کو کم ظاہر کرتی ہے، متاثرین پر الزام تراشی اور تصاویر پر بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے، اس کے علاوہ نامناسب تفتیشی کارروائی میں بھی ملوث پائی گئی ہے۔‘
’اور جب کیسز درج بھی کر لیے جائیں تو متاثرہ خواتین اپنے مقدمات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور عدالت میں اپنی شنوائی کا انتظار ہی کرتی رہ جاتی ہیں۔‘
سائبر سیکس جیسے جرائم سے متاثرہ خواتین اور ماہرین سے انٹرویو لینے والے محققین کے مطابق جنوبی کوریا میں 2008 میں چار فیصد سے بھی کم جنسی جرائم، جن میں غیر قانونی فلم بندی بھی شامل ہے، کے خلاف قانونی کارروائی کا انکشاف ہوا تھا۔ لیکن 2017 میں اس طرح کے کیسز کی تعداد 585 کیسز سے بڑھ کر 6،615 کیسز ہو گئی، اس طرح ان مقدمات کی تعداد 11 گنا بڑھ چکی تھی اور اب ملک میں جنسی جرائم کے 20 فیصد مقدمات چل رہے ہیں۔
ہیڈر بار نے مزید کہا: ’جنوبی کوریا میں ڈیجیٹل سیکس جرائم کی اصل وجہ خواتین اور لڑکیوں کے بارے میں نقصان دہ خیالات اور طرز عمل کو بڑے پیمانے پر قبول کیا جانا ہے، جس پر حکومت کو فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول: ’حکومت نے قانون تو بنا دیے لیکن اس نے واضح اور سخت پیغام نہیں دیا کہ خواتین اور مرد برابر ہیں اور یہ کہ زن بیزاری یا خواتین سے نفرت ناقابل قبول فعل ہے۔‘
حالیہ برسوں کے دوران جنوبی کوریا میں خواتین کی بڑی تعداد مردوں کی اجارہ داری جیسی اقدار کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلی ہیں، جنہوں نے زیادہ سے زیادہ مساوات اور رضامندی کے بغیر فلم بندی اور جنسی حملوں جیسے معاملات کے خلاف لڑائی کا مطالبہ کیا۔
© The Independent