ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور روس کے درمیان حالات کشیدہ تھے، ایک دوسرے پر الزامات اور تہمات لگائی جا رہی تھیں اور محاذ آرائی پر مبنی دشمنی شروع ہو جانے کے انتباہی پیغامات دیے جا رہے تھے، جنیوا سمٹ دونوں قوتوں کے رہنماؤں کی پہلی ملاقات تھی۔
یہ ملاقات ایک اہم کامیابی ثابت ہوئی جس سے تعلقات بحالی کا راستہ ہموار ہو گیا۔ یہ ملاقات نومبر 1985 میں رونالڈ ریگن اور میخائل گورباچوف کے درمیان ہوئی۔
ان دونوں شخصیات نے ذاتی تعلق قائم کیا اور ایک سال بعد ریکیابک میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ پر پابندی لگانے کے لیے دوبارہ ملاقات کی۔
36 سال بعد جو بائیڈن اور ولادی میر پوتن کے درمیان جنیوا سربراہی اجلاس روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے پس منظر میں ہوا جو ’زہریلی سطح‘ تک پہنچ گئے ہیں۔ اس بات پر عام اتفاق تھا کہ اس اجلاس سے کسی بڑی کامیابی کی امید نہیں۔
اگرچہ یہ ملاقات توقع سے کم وقت میں ختم ہوئی لیکن دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ ’تعمیری‘ رہی اور سائبر سکیورٹی سے لے کر بے دخل سفارتی اہلکاروں کی واپسی، قیدیوں کے تبادلے اور یوکرین کے معاملے پر ’دشمنی رکھے بغیر‘ تبادلہ خیال کیا گیا۔
ریگن۔ گورباچوف سربراہی اجلاس چھ سالوں میں دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان پہلا اجلاس تھا۔ یہ اس کا آدھا دورانیہ یعنی تین برس ہے جب روسی صدر پوتن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔
لیکن اس ملاقات نے امریکہ میں روس کے بارے میں گہری تقسیم کو اجاگر کیا کیونکہ صدر ٹرمپ نے، جن پر وائٹ ہاؤس کے لیے ’ماسکوین‘ امیدوار ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا تھا، روسی صدر کا ساتھ دیا۔
وہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیز کے خلاف گئے جو 2016 کے انتخابات میں کریملن پر مداخلت کے الزامات عائد کر رہی تھیں۔
صدر بائیڈن، جنہوں نے روسی صدر پر 2020 کے انتخابات میں ہیرا پھیری کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا اور وہ اصرار کرتے رہے کہ ’اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی، آپ کو جلد ہی نظر آئے گا‘، انہوں نے مسٹر پوتن کو ’قاتل‘ اور ایسا شخص کہا تھا جس کی کوئی روح نہ ہو۔
انہوں نے اس سربراہی اجلاس سے قبل نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے صدر پوتن کو ’روشن، سخت اور ایک قابل مخالف‘ قرار دیا۔
ملاقات سے قبل انہوں نے اس کو ’دو عظیم طاقتوں‘ کے درمیان ایک اہم گفتگو قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ ’آمنے سامنے رہنا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔‘
مسٹر پوتن نے اس ملاقات کے بعد مسٹر بائیڈن کو ایک ’تجربہ کار سیاست دان‘ کے طور پر بیان کیا جن کے ساتھ وہ دو گھنٹے تک تفصیل سے بات کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ امریکی صدر ’صدر ٹرمپ سے بہت مختلف ہیں‘۔ یہ وہ بات ہے جسے صدر بائیڈن بلا شبہ اپنی تعریف ہی سمجھیں گے۔
لہجے میں بدلاؤ، صدر بائیڈن کا صدر پوتن کو دعوت دینا وہ بھی متوقع وقت سے پہلے جب یوکرین کی سرحد پر روسی فوجیوں کی تعیناتی کی جا رہی ہے۔
چند تجزیہ کار اس ساری صورتحال کی منظر کشی کریملن کی فتح کے طور پر کر رہے ہیں۔
روسی خارجہ امور کے ماہر اور کالم نگار ولادی میر فروولوف نے کہا کہ ’پوتن کا ہدف یہ ہے کہ آج ہم جس بے عزتی پر مبنی تعلقات کا سامنا کر رہے ہیں وہ انہیں ایک قابل احترام رشتے میں منتقل کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ مستحکم تعلقات کا قیام صدر بائیڈن کے مقاصد سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔‘
برطانوی سکیورٹی کے تجزیہ کار رابرٹ ایمرسن نے کہا: ’امریکی انتخابات میں ہونے والے واقعات کے بعد ڈیموکریٹس اور جو بائیڈن کی واضح طور پر پوتن کے ساتھ ایک حد تک دشمنی تھی لیکن کوئی ہے جو آس پاس موجود ہے جب تک صدر بائیڈن کو یہ معلوم ہے کہ اہم اجلاسوں میں اور اہم افراد کے ساتھ کیسے معاملات طے کرنے ہیں۔‘
یہ اجلاس تین گھنٹے تک جاری رہا جس کے بیچ میں 40 منٹ کا وقفہ لیا گیا۔ اس کا آغاز محض امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف کے ساتھ مترجموں کے ساتھ ہوا اور پھر اس میں توسیع کرکے اعلیٰ معاونین کو بھی شامل کیا گیا۔
ہیلسنکی سربراہی اجلاس کے بعد منعقدہ مشترکہ پریس کانفرنس کی ایک اہم جھلکی ہے کہ جب صدر پوتن بات کر رہے تھے تو صدر ٹرمپ فرماں برداری کے ساتھ سر ہلا رہے تھے اور روسی صدر کو کسی بھی چیز کا کسی بھی طرح الزام دینے سے انکار کر رہے تھے۔
یہ وہاں موجود بہت سارے امریکی عہدے داروں کے لیے شرم ناک تھا۔ محکمہ خارجہ کی ایک سینیئر اہلکار اور قومی سلامتی کی سابقہ مشیر فیونا ہل اس قدر غم زدہ تھیں کہ وہ آگ لگنے کے الارم کو بجانا چاہتی تھیں جو انہیں نہیں مل پایا تو انہوں نے سوچا کہ وہ کسی بھی طرح کی ’جعلی طبی ہنگامی صورتحال کا بہانہ بنا کر خود کو میڈیا کے سامنے چیخ مار کر پیچھے کی طرف پھینک دیں۔‘
اس سربراہی اجلاس میں صدر بائیڈن کی مشیر ہل بھی ان لوگوں میں شامل تھیں جنھوں نے ایک اور مشترکہ پریس کانفرنس کے لیے روسی تجویز پر راضی ہونے کے خلاف مشاورت کی تھی۔ اجلاس کے بعد دونوں رہنماؤں نے میڈیا سے علیحدہ علیدہ ملاقات کی۔
صدر پوتن پہلے آئے اور کہا کہ ان مذاکرات نے دونوں ممالک کے مابین باہمی اعتماد کی ’امید کی جھلک‘ پیش کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان نکالے گئے سفارت کاروں کے بارے میں معاہدہ طے پایا ہے۔ بعد میں یہ اعلان کیا گیا کہ روس کے سفیر اناطولی انتونوف جولائی تک واشنگٹن واپس جائیں گے۔
روسیوں کو 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوششوں اور سالسبری نووچوک میں زہر آلود ہونے کے بعد متحدہ مغربی اقدام کے تحت نکال دیا گیا تھا۔ روسیوں نے امریکیوں کو بے دخل کرکے جوابی کارروائی کی تھی۔
صدر ریگن اور صدر گورباچوف نے جوہری ہتھیاروں، سائبر وارفیئر اور اس میں روس کے حصے پر توجہ مرکوز رکھی تھی۔ اس بار یہ موضوع زیربحث تھا۔
صدر پوتن نے نشاندہی کی کہ روس کے صحت کے نظام پر حملہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اس نے اس معاملے کو نظرانداز کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو ’مکمل معلومات فراہم کی گئیں‘ لیکن اس کا جواب نہیں دیا گیا۔
روسی صدر نے روسی عدم استحکام کے الزامات سے متعلق ایک سوال پر بھی خفگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’آپ نے کہا کہ مغرب کا خیال ہے کہ روسی پالیسی غیر متوقع ہے۔ مجھے جواب دینے دیں۔ 2002 میں اے بی ایم معاہدے سے امریکی انخلا غیر متوقع تھا۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‘
صدر پوتن نے پوچھا ’پھر 2019 میں آئی این ایف کے معاہدے سے دست برداری کے بعد تزویراتی استحکام کی بنیاد میں خلل ڈالا اور اسے نقصان پہنچایا۔ کیا آپ اسے استحکام کہتے ہیں؟ اوپن اسکائے کے معاہدے سے دست برداری، اچھا کیا آپ اسے استحکام کہتے ہیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پوتن نے کہا کہ یوکرائن کے ممکنہ طور پر نیٹو میں شمولیت کے انتہائی متنازع معاملے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس کے بارے میں روسیوں کا موقف ہے کہ وہ مشرقی یورپ کے عدم استحکام کا باعث بنے گا۔
روسی صدر نے ماضی میں روس کی سرحدوں کی جانب مزید توسیع کے خلاف خبردار کیا تھا۔ درحقیقت مغربی یورپی اراکین میں اتحاد کو بڑھانے کے لیے تھوڑا سا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلینسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے ان کے ملک کی شمولیت کے لیے ایک روڈ میپ پر اتفاق کیا ہے۔
مسٹر بائیڈن نے کہا: ’میں جو کرنے آیا تھا وہ میں نے کیا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے صدر پوتن سے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ ’بنیادی انسانی حقوق‘ کے معاملات اٹھائیں گے جن میں جیل میں قید کریملن کے ناقد الیکسی نوالنی اور دو امریکی جو روس میں ’غلط طریقے سے قید‘ ہیں۔
انہوں نے صدر پوتن کے نوالنی جیسے نقادوں پر عائد الزامات کا موازنہ چھ جنوری کو دارالحکومت میں بغاوت کرنے والے فسادیوں کے خلاف دائر الزامات سے کرنے پر بھی خفگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز موازنہ ہے‘۔
کسی بھی رہنما نے دوسرے کو اجلاس میں مدعو نہیں کیا تھا۔ لہذا بدھ کے اجلاس میں ’ریکیابک‘ جیسی صورتحال نہیں تھی لیکن کم از کم نئی سرد جنگ میں پگھلاؤ ضرور آیا ہے۔
© The Independent