امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی دہلی کی جانب سے امریکی مصنوعات پر زیادہ ٹیرف سے متعلق اپنی دیرینہ شکایت دہراتے ہوئے انڈیا کو جوابی محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بیان فلوریڈا میں اپنے نجی ریزارٹ پر ایک نیوز کانفرنس میں کامرس سیکرٹری پک ہاورڈ لوٹنک کے ہمراہ دیا۔
اپنے ’امریکہ فرسٹ‘ نظریے کے تحت متعدد ممالک کو محصولات کی دھمکی دینے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے 2019 میں اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران انڈیا کے لیے ترجیحی تجارتی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور ٹرمپ کے قریبی تعلقات کے باوجود انڈیا کو پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ٹیرف کی ایک تلخ جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس نے دوطرفہ تجارتی تعلقات کو متاثر کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’ایک لمحے کے لیے ٹیرف کے لفظ کو بھول جائیں۔ اگر وہ ہم پر ٹیکس لگاتے ہیں تو ہم ان پر اتنا ہی ٹیکس لگائیں گے۔ وہ ہم پر ٹیکس لگاتے ہیں، ہم ان پر ٹیکس لگاتے ہیں، اور وہ ہماری تقریباً تمام مصنوعات پر ٹیکس لگاتے ہیں اور ہم ان پر ٹیکس نہیں لگا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جوابی لفظ اہم ہے کیونکہ اگر کوئی ہم سے (ٹیکس) چارج کرتا ہے، جیسے انڈیا، ہمیں اپنے بارے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر انڈیا ہم سے 100 فیصد ٹیکس چارج کرتا ہے، تو کیا ہمیں ان سے کچھ نہیں لینا چاہیے؟‘
نو منتخب صدر نے مزید کہا کہ ’انڈیا بہت زیادہ (ٹیکس) چارج کرتا ہے۔ برازیل بھی بہت زیادہ ٹیکس لگاتا ہے۔ اگر وہ ہم سے ٹیکس لینا چاہتے ہیں تو یہ ٹھیک ہے لیکن ہم ان سے اتنا ہی وصول کرنے جا رہے ہیں۔‘
گذشتہ دو دہائیوں میں انڈیا اور چین کے تعلقات میں تلخی آئی ہے جب کہ واشنگٹن کے بھی چین کے ساتھ تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے دوران انڈیا اور امریکہ کے تعلقات مزید بہتر ہوئے کیونکہ واشنگٹن نے نئی دہلی کو انڈو پیسفک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سٹریٹجک شراکت دار کے طور پر دیکھا۔
تاہم تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ میں انڈیا اور امریکہ تعلقات کو ٹیرف پر بڑھتی ہوئی جنگ کے امتحان سے گزرنا پڑے گا۔
اپنی انتخابی جیت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تو وہ برکس ممالک یعنی برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ پر 100 فیصد ٹیرف لگا دیں گے۔
ٹرمپ نے 30 نومبر کو اپنے ذاتی پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر کہا: ’ہمیں ان ممالک سے اس عزم کی ضرورت ہے کہ وہ نہ تو کوئی نئی برکس کرنسی بنائیں گے، نہ ہی امریکی ڈالر کی جگہ کسی دوسری کرنسی کو دیں گے بصورت دیگر انہیں 100 فیصد محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں شاندار امریکی معیشت میں اپنی مصنوعات کی فروخت کو الوداع کہنا ہوگا۔‘
انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے دسمبر میں کہا تھا کہ انڈیا کو ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے سے گھبراہٹ نہیں ہے۔
جے شنکر نے کہا: ’امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرنے کے لیے انڈیا بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ فائدہ مند پوزیشن میں ہے۔ کچھ ممالک ٹرمپ کی دوسری مدت کو ایک سیاسی چیلنج کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں دیکھ رہے۔‘
2017 سے 2021 کے درمیان مودی اور ٹرمپ کے درمیان دوستی اور دونوں رہنماؤں کی ایک دوسرے کے لیے تعریفی کلمات دیکھے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2019 میں صدر ٹرمپ نے وزیراعظم مودی کو ’ہاؤڈی، مودی‘ تقریب کے لیے خوش آمدید کہا تھا۔ ہیوسٹن میں ہونے والی اس تقریب میں ٹرمپ نے انہیں ایک ’غیر معمولی‘ رہنما کے طور پر بیان کیا۔
انڈین-امریکی کمیونٹی کے اس ایونٹ میں 50 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی اور اسے امریکہ میں کسی غیر ملکی رہنما کے سب سے بڑے استقبال میں سے ایک قرار دے کر سراہا گیا تھا۔
اس کے بعد صدر ٹرمپ کا انڈیا میں شاندار استقبال کیا گیا۔ احمد آباد میں ’نمستے ٹرمپ‘ پروگرام میں ان کا خیرمقدم کیا گیا اور مودی نے ان کی ’گہری ذاتی دوستی‘ کی تعریف کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے گجرات ریاست کے پہلے سرکاری دورے میں دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ سٹیڈیم میں ایک لاکھ 25 ہزار لوگ جمع تھے۔
پانچ جون سے ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کے لیے ترجیحات کے عمومی نظام یعنی جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز (جی پی ایس) کے تحت تجارتی مراعات کو ختم کر دیا جو اس سکیم سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے جسے 5.6 ارب ڈالر تک ڈیوٹی فری برآمدات کی اجازت دی تھی۔
جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز کے خاتمے کے بعد 2019 میں انڈیا نے بھی بادام، سیب اور اخروٹ سمیت 28 امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف عائد کیا۔
تاہم 2023 میں 120 ارب ڈالر کی اشیا اور سروسز کی برآمدات کے ساتھ امریکہ انڈیا کی سب سے بڑی برآمدی منڈی بن گیا۔
© The Independent