چند دنوں کے اندر اندر شام کی صورت حال لڑھکتے ہوئے برف کے گولے کی طرح اتنی غیر معمولی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی کہ مبصرین کو اپنے اوسان بحال کرنے اور واقعات کو سمجھنے کی فرصت بھی نہ ملی۔
محض 11 دن سے بھی کم میں وہ کچھ ہو گیا جس پر عوام اور رہنما دہائیوں سے کام کر رہے تھے۔ اس پر روسی لیڈر لینن کے الفاظ صادق آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ’ایسی دہائیاں بھی ہوتی ہیں جن میں کچھ نہیں ہوتا، اور کچھ ایسے ہفتے بھی ہوتے ہیں جن میں دہائیاں رونما ہو جاتی ہیں۔‘
آٹھ دسمبر سے شام مسلح حزب اختلاف کی دارالحکومت دمشق پر قبضے اور بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے، اس دوران شامی افواج مسلح اپوزیشن کے اچانک حملے کے سامنے کھڑی نہ ہو سکیں اور ڈرامائی انداز میں ڈھیر ہو گئیں، جس کی وجہ سٹرکچرل کمزوریاں اور مستقل بگاڑ تھی۔
اس کے علاوہ بشار الاسد کے فوری فرار کی وجہ سے قیادت کا خلا پیدا ہو گیا اور سابقہ نظام کے خاتمے کا عمل تیز ہو گیا۔ تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسد حکومت کا خاتمہ صرف 11 دنوں میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ یہ 2011 کی شامی جنگ کے آغاز سے پیدا ہونے والے اندرونی کمزوریوں اور خرابی کے علاوہ روس، ایران اور حزب اللہ کی بیرونی امداد پر انحصار کا حتمی نتیجہ تھا، چنانچہ مسلح اپوزیشن کا آخری حملہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا جس نے نظام کی لڑکھڑاتی دیوار کو آخری دھکا دیکر اس کو جلد اپنے انجام تک پہنچا دیا۔
محور مزاحمت بیانیہ کا زوال
شامی نظام کے زوال کی وجوہات پر آنے والے مہینوں نہیں بلکہ سالوں تک تجزیے اور رپورٹیں سامنے آتی رہیں گی کیونکہ جو ہوا ہے اس نے خطے کے ساتھ ان بیانیوں کی بھی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں جو نسلوں سے چلے آ رہے ہیں اور ہر کسی کو اپنے حساب کتاب پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی شام کا بعث پارٹی اور اسد کی قیادت میں متحرک عنصر کے طور پر کردار کا بھی اختتام ہو گیا، اور شام کے علاقائی کردار میں بڑی تبدیلیوں کے دروازے کھل گئے۔ شام اپنی قوم پرستانہ تقریروں اور اسرائیل عرب تنازعے میں اپنے کردار کے ذریعے عالم عرب کی قیادت کے لیے کوشاں رہا، اور حافظ الاسد کے دور سے اپنے جیوپولیٹیکل پوزیشن کو فلسطینی دھڑوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے اسرائیل مخالف فلسطینی مزاحمت کار گروہوں کی حمایت کے لیے استعمال کرتا رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعدازاں شام نے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ مل کر ’محور مزاحمت‘ تشکیل دیا جس نے خطے میں امریکی اور اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کی۔ اس ضمن میں شامی خارجہ پالیسی کا غالباً سب سے بڑا ہتھیار اس کی لبنان میں مداخلت تھی جس کے باعث شام کو خطے کے معاملات میں بڑا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
تاہم 2011 کی عوامی تحریک شروع ہونے کے بعد شام کا علاقائی کردار کمزور اور محدود ہو گیا اور نظام کی بقا کی اتحادیوں کی امداد کے مرہون منت ہو گئی جس سے ملک کی خودمختاری متاثر ہوئی اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ بعث پارٹی کے علاقائی کردار کا طویل دور بشار حکومت کے زوال پر ختم ہوا۔
دوسری جانب ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں شامی مسلح حزب اختلاف 27 نومبر کو ’ردع العدوان‘ کے نام سے حکومت مخلاف کارروائیوں کے سامنے شامی حکومت پہلے دن سے ہی کمزور نظر آئی۔ البتہ اس دوران توقع کی جا رہی تھی کہ شامی حکومت کے اتحادی حزب اللہ کی قیادت میں اسے فوری اور جامع طریقے سے بچانے کے لیے مداخلت کریں گے۔
تاہم حزب اللہ نے شامی صدر کی حمایت میں براہ راست مداخلت کرنے میں واضح ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جس نے حزب اللہ کی سیاسی و عسکری کیلکولیشنز کے متعلق بڑے سوالات اٹھا دیے ہیں جن کی بنا پر حزب اللہ نے یہ پوزیشن اپنائی۔
حزب کی ہچکچاہٹ کئی پیچیدہ عوامل کی عکاسی کرتی ہے جن کا تعلق سٹریٹجک پیش بندی، علاقائی پیچیدگی اور ’محور مزاحمت‘ کے اتحاد کی نوعیت سے ہیں، سوال یہ ہے کہ حزب اللہ کی فوری مداخلت میں کیا امر حائل ہوا، اور بشار الاسد کی حمایت سے اجتناب شامی منظر نامے کے غلط تجزیے کا نیتجہ تھا یا خطے میں حساس توازن برقرار رکھنے کی وسیع حکمت عملی کا حصہ؟
کیا حزب اللہ نے اپنے بشار الاسد کو رسوا کیا؟
حزب اللہ کے موقف کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے حزب اور شامی حکومت کے سیاسی اور عسکری تعلقات کی گہرائیوں میں جانا ضروری ہے، اس کے علاوہ شامی بحران کی پیش رفت اور اس کے علاقائی اور عالمی محرکات کا فہم بھی ضروری ہے۔ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اس مشکل مرحلے میں حزب اللہ کے کردار کے متعلق سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اس پر کہ کیا حزب نے اپنے شامی حلیف کو رسوا کیا۔
اس سلسلسے میں متعدد عوامل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، جس میں حزب کی شام میں سابقہ مداخلتیں شامل ہیں۔ چنانچہ شام میں 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد حزب اللہ نے شامی حکومت کو بھرپور عسکری امداد فراہم کی اور 2012 سے حزب کے جنگجووں نے حلب اور قصیر کے مقامات پر فیصلہ کن لڑائیوں میں حصہ لیا جس سے حکومت مضبوط ہوئی اور اس کی بقا کو طول ملا۔
امریکی میگزین ’نیوز ویک‘ کی طرف سے اپریل 2017 میں شائع ہونے والے ایک سروے میں اس مرحلے پر حزب اللہ کے شام میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی تھیں جس کے مطابق حزب نے 30 ستمبر 2012 سے 10 اپریل 2017 کے درمیان اپنے تقریباً 1,048 جنگجوؤں کو کھو دیا تھا۔
تاہم میگزین کے مطابق اس تعداد کو کم سے کم سمجھا جائے کیونکہ حزب اللہ کی قیادت کے پاس نقصانات کو کم بتانے کی ہر وجہ موجود ہے اور اموات کی تعداد کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنے سے مخالفین کی طاقت کا اندازہ ہو گا، لہٰذا عین ممکن ہے کہ تعداد کم کر کے بتائی گئی ہو۔ حزب اللہ کے شامی جنگ میں شریک جنگجوؤں میں سے 60 افراد کی شناخت فیلڈ کمانڈر کے طور پر کی گئی۔
اس کے برعکس گذشتہ چند ہفتوں کے واقعات کو دیکھا جائے تو حزب اللہ کے رہنما شام میں ہونے والی پیش رفت خاص طور پر شمالی شام میں اپوزیشن فورسز کی پیش قدمی کے حوالے سے خاموش رہے۔
حکومت کے خاتمے سے چند دن پہلے حزب کے جنرل سیکریٹری نعیم قاسم نے شام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا اعادہ کیا، لیکن انہوں شامی حکومت کی امداد اور حمایت کے طریقہ کار کے متعلق کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
اس کے ساتھ ہی حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حزب نے ماضی میں شامی حکومت اور عوام کی طرف سے جنگ لڑی۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’اگر جو کچھ ہو رہا ہے وہ شام کے عوام کے مفاد کے مطابق ہے تو یہ شامی عوام کا ہی فیصلہ ہے، حزب کبھی بھی شامیوں کے ساتھ دشمنی یا حالت جنگ میں نہیں تھی، بلکہ حزب تو شامی عوام پر ظلم کرنے والی دہشت گرد اور تکفیری جماعتوں کے خلاف نبرد آزما تھی۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’شام خیریت سے رہے، کسی اور تنازعہ کا شکار نہ ہو اور داخلی تنازعات و فتنے سے شام کے ٹکڑے نہ ہوں۔‘
اس ضمن میں دستیاب قرائن کی بنیاد پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ حزب اللہ نے جان بوجھ کر اپنے حلیف بشار الاسد کو رسوا کیا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ حزب اللہ کو جن چیلنجوں اور دباؤ کا سامنا ہے اس نے تنازعے کے آخری مرحلہ میں حزب کی موثر امداد فراہم کرنے کی صلاحیت کو محدود کردیا۔ تاہم اس کے باوجود شام میں حزب اللہ کا کردار سوالات اور بحث کا موضوع بنا ہوا ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب خطے تیز رفتار پیش رفتوں سے گزر رہا ہے۔
بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ حزب اللہ لبنان میں دو ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں کے دوران عسکری طور پر تھک چکی تھی جس کی وجہ سے اس کی صفوں میں نمایاں نقصان ہوا اور اس کی فوجی صلاحیتوں میں کمی واقع ہوئی۔
خطے میں کشیدگی میں اضافے کے ساتھ حزب اللہ کو بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا جس نے اپنے آخری مراحل میں شامی حکومت کو موثر مدد فراہم کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا، اور حزب شامی حکومت کو امدادی بیانات جاری کرنے یا چھوٹی موٹی نقل وحرکت تک محدود ہو گئی۔
اس کے علاوہ مبصرین نے ایک دلچسپ نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حزب اللہ کی شام میں پیش آنی والی صورت حال پر سرد مہری اسد حکومت کی خود کو لبنان کے اندر ہونے والے واقعات سے دور رکھنے کا ردعمل ہے۔
یہاں تک کہ شامی صدر نے حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری حسن نصر اللہ کے مارے جانے پر بھی ان کی موت کے دو دن بعد بیان جاری کیا تھا جس کی وجہ سے حزب اللہ کے حامیوں میں غم و غصہ تھا اور انہوں نے اس وقت سوشل میڈیا پر بشار کے موقف کو مایوس کن قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
حزب اللہ کا نئی ’امیج‘
حزب اللہ کی شامی حکومت کی امداد نہ کرنے کے حوالے سے یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حزب اپنی جماعت، لبنان اور خطے کی صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے رہی ہو۔ حزب شام کو نہ صرف سیاسی حلیف کے بلکہ ایرانی امداد کے گیٹ وے کے طور پر دیکھتی تھی کیونکہ عسکری اور لاجسٹک رسد کی فراہمی شامی سرزمین کے ذریعے ہی کی جاتی تھی۔
تاہم اسرائیل سے حالیہ جنگ اور رسد کے ذرائع ٹوٹنے کے بعد حزب اللہ نے حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے اور اب وہ خود کو ایک قومی جماعت کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے جو دیگر ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔
حزب اللہ اس پالیسی کے ذریعے اپنے وسائل کو ایسی جنگ میں ضائع ہونے سے بچا رہی ہے جو معلوم نہیں کہ کیا رخ اختیار کرے، جبکہ اسی دوران حزب تنازعے کی بدلتی صورت حال کا جائزہ بھی لے رہی ہے اور علاقائی وعالمی موقف واضح ہونے کے انتظار میں ہے۔ علاوہ ازیں حزب اللہ کو ایران کے مشورے کے بغیر بذات خود فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار نہیں ہے۔
اس ضمن میں انڈپینڈنٹ عربیہ سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار فادی ابو دیہ نے کہا کہ ’حزب اللہ ابھی ایک مشکل اور تھکا دینے والی جنگ سے نکلی ہے لہٰذا وہ کسی بڑے بین الاقوامی اور علاقائی کھیل میں داخل نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ لبنان کو حقیقی خطرہ لاحق ہو۔
’یہ واضح ہے کہ یہ منصوبہ شام پر نہیں رکے گا بلکہ اس میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں کیونکہ عراق، لبنان اور شام میں شام کی حیثیت کلید کی ہے اور اگر یہ تبدیلی شام سے نکل کر لبنان تک پہنچی تو حزب اللہ یقیناً ملک کے دفاع میں پیش پیش ہو گی۔‘
ابودیہ نے مزید کہا کہ ’جب ہم شامی عوام کی مرضی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ شام کے تمام صوبے بشار الاسد کی اقتدار سے روانگی پر کیا رد عمل دیتے ہیں، تاہم یہ واضح ہے کہ شامی عوام ایک نئے سیاسی باب کے آغاز کے لیے بےچین ہے۔‘
اسد کے زوال پر حزب اللہ کی شکست کے اثرات
اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کی شکست نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے میں بالواسطہ لیکن موثر کردار ادا کیا۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں حزب اللہ کے زوال نے اسد کے حمایتی علاقائی محور کو کمزور کر دیا جس کی وجہ سے فوجی اور لاجسٹک سپورٹ میں اس وقت کمی واقع ہو گئی جب شامی حکومت کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
اسد کا زوال طویل المدتی عوامل کی عکاسی کرتا ہے تاہم حزب کی شکست یقینی طور پر ان فیصلہ کن عوامل میں سے ایک تھی جس نے حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کی۔
حزب اللہ نے ایک سے زائد مرتبہ شامی حکومت کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا، اور یہ حمایت محض ایک غیر ملکی تنظیم کی حکومت کو امداد نہیں تھی بلکہ یہ ایران، شام اور حزب اللہ پر مشتمل سہ رکنی اتفاق کا حصہ تھا، تاہم حزب کی شکست کے بعد علاقائی سطح پر اس کا عسکری دبدبہ ختم ہو گیا جس کا اثر شامی حکومت پر بھی پڑا جو حزب پر انحصار کر رہی تھی۔
حزب اللہ کی لبنان میں شکست اور اس لاجسٹک اور عسکری امداد کرنے کی صلاحیت ختم ہونے کی وجہ سے شامی حکومت اکیلی رہ گئی، جبکہ دوسری جانب محور کا دوسرا رکن ایران بھی حزب اللہ کی شکست کی وجہ سے اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو گیا اور شامی حکومت کی امداد کرنے سے قاصر رہی۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ