حال ہی میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے بلیسٹک میزائل پروگرام پر پابندیوں کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتے کو کہا کہ پاکستان کی سٹریٹجک اور دفاعی صلاحیتیں جنوبی ایشیا میں امن کے تحفظ کے لیے ہیں، اور پاکستان اپنے دفاع کے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔
دفتر خارجہ کی جانب سے امریکی سینیئر عہدیدار کے تھنک ٹینک میں بیان پر رد عمل میں کہا ہے کہ پاکستان کی میزائل صلاحیتوں اور ڈیلیوری سسٹم سے متعلق مبینہ خطرات کا تاثر بدقسمتی پر مبنی ہے۔
ترجمان ممتاز زہرہ نے کہا ہے کہ پاکستان خطرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی دفاعی صلاحیتوں کے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
بیان کے مطابق: ’ہمارے مشرقی ہمسائے کی کہیں زیادہ طاقت ور میزائل صلاحیتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تحفظ دیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کی صلاحیتوں پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں جو بظاہر دوسروں کے کہنے پر پہلے سے کمزور سٹریٹیجک استحکام کو مزید خراب کرنے کے لیے ہیں۔‘
ترجمان کا کہنا ہے کہ 2012 سے امریکی عہدے داروں نے اس موضوع پر بات کرنا شروع کی۔ پاکستان کی مختلف حکومتوں اور عہدیداروں نے وقتاً فوقتاً ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
بیان کے مطابق امریکی الزامات غیر منطقی، بے بنیاد اور تاریخ سے لاعلمی پر مبنی ہیں۔ سال 1954 سے پاکستان اور امریکہ کے مابین مثبت اور وسیع تعلقات رہے ہیں۔ ثبوت کے بغیر اہم غیر نیٹو اتحادی کے خلاف حالیہ الزامات دوطرفہ تعلقات کے لیے بہتر ثابت نہیں ہو سکتے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے کبھی کسی بھی صورت میں امریکہ کے لیے برے ارادے کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ باہمی تعلقات کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’امریکی پالیسیوں کے خطے پر اثرات کے نتیجے میں پاکستان آج بھی بھاری نقصان اٹھا رہا ہے۔ یہ افسوس ناک ہے کہ امریکی عہدے دار نے پاکستان کو ان کے مخالفین کے ساتھ جوڑنے کا عندیہ دیا۔‘
ترجمان نے واضح پیغام دیا کہ پاکستان کے عوام اور ملکی دفاع کے لیے سٹریٹجک پروگرام میں دخل اندازی کی کسی بھی قسم کی کوشش نا قابل تصور اور ناممکن ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائڈر نے کہا کہ ’ہم پاکستان کو خطے میں ایک شراکت دار کے طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہم نے ماضی میں دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے۔‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں مزید کہا کہ ’میں پاکستان اور انڈین اسلحے کے پروگرام کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتا سکوں گا۔ ہم اس خطے میں انڈیا اور پاکستان دونوں کو اہم شراکت کار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کی خطے کی سلامتی میں اہم کردار ہے۔‘
امریکی پابندیاں اور پاکستان کا ردعمل
امریکی محکمہ خارجہ نے 18 دسمبر کو ایک اعلامیے میں جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں پروگرام کی نگرانی کرنے والی سرکاری دفاعی ایجنسی نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس کے علاوہ ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز اور روک سائیڈ انٹرپرائز نامی تین نجی تجارتی ادارے شامل ہیں۔
امریکہ کی جانب سے حالیہ پابندیاں ایگزیکٹو آرڈر 13382 کے تحت لگائی گئی ہیں، جس میں ایسے افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، جو ہتھیاروں اور ان کے ترسیلی ذرائع کے پھیلاؤ میں ملوث ہوں۔
پاکستان نے 19 دسمبر کو امریکی پابندیوں کے فیصلے کو ’متعصبانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان کا سٹریٹجک پروگرام 24 کروڑ عوام کی جانب سے اپنی قیادت کے لیے مقدس امانت ہے۔ جو سیاسی جماعتوں کے تمام حلقوں میں بلند ترین مقام رکھتی ہے اور کسی صورت بھی متاثر نہیں ہو سکتی۔‘
بیان میں نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی قسم کی فہرست سازی محض شک و شبہات کی بنیاد پر کی گئی، جس کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔‘