اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے ان کا حلف نامے، جس میں انہوں نے خفیہ ایجنسیوں پر عدالت کے بینچ بنانے میں کردار ادا کرنے کا الزام لگایا تھا، کا واپس کیا جانا چیلنج کر دیا ہے۔
رجسٹرار سپریم کورٹ نے جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے جمع کرایا گیا حلف نامہ اس نوٹ کے ساتھ واپس کیا تھا کہ درخواست میں حساس ادارے کے خلاف ناقص معلومات کے علاوہ نامناسب زبان بھی استعمال کی گئی ہے۔
رجسٹرار نے لکھا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1980 کے قواعد و ضوابط کے تحت اس حلف نامے کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔
جسٹس صدیقی نے درخواست میں سپریم کورٹ سے اسسٹنٹ رجسٹرار کی جانب سے کیے جانے والے اعتراضات کو ایک طرف رکھتے ہوئے حلف نامے کو ریکارڈ کا حصہ بنا کر اس پانچ رکنی بینچ کے سامنے رکھا جائے جو ان کی سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے اور ہائی کورٹ جج کی حیثیت سے ان کی برطرفی کے نوٹیفیکیشن کے خلاف اپیل کی سماعت کرے گا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں پر الزامات لگانے کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل نے جج کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق جج کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ’بیان حلفی میں جسٹس شوکت صدیقی نے انٹیلیجنس کے سینیئر افسران سے اپنی ملاقاتوں کے بارے میں ذکر کیا ہے، اور یہ وہی حلف نامہ ہے جس پر وفاقی حکومت نے 10 جون کو انٹرو سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور شوکت صدیقی کے درمیان ملاقاتوں کے بارے میں اطلاعات کو گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔‘
جسٹس صدیقی کی تازہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ’رجسٹرار کی جانب سے واپس کیا گیا حلف نامہ مقدمے کے حقائق اور میرٹس پر اثر انداز ہو سکتا ہے اس لیے اسے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حلف نامہ واپس کرنے کے سلسلے میں دی جانے والی وجوہات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ حلف نامے میں کوئی ابہام یا زبان استعمال نہیں کی گئی ہے۔‘
اپیل میں مزید کہا گیا ہے کہ ’واپس کیے گئے حلف نامے میں وہی حقائق تھے جو درخواست گزار نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے انہیں شوکاز نوٹس کے اضافی جواب میں شامل کیے تھے۔ حلف نامے میں سپریم جوڈیشل کونسل کے شو کاز نوٹس کے اضافی جواب میں شامل مواد سے کچھ بھی زیادہ نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حلف نامے کے ذریعہ کوئی نئے حقائق پیش نہیں کیے جا رہے۔