سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران شوکت صدیقی بینچ کی جانب سے خود پر اٹھنے والے سوالات پر جذباتی ہو کر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ ان کے فوج سے کوئی تعلقات نہیں ہیں بلکہ تقریر میں ان کا مقصد اپنے ادارے کا دفاع اور عدلیہ میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران سابق جج شوکت صدیقی خود بھی موجود تھے اور روسٹرم کے پیچھے دوسری قطار میں تشریف فرما تھے جبکہ کمرہ عدالت میں صحافیوں اور وکلا کے علاوہ سادہ لباس میں چند اہلکار بھی دکھائی دیے۔
آج کی سماعت میں شوکت صدیقی کے وکیل نے اپنے موکل کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا، جس میں انکشافات کیے گئے کہ خفیہ ادارے کے جن افسران کا گذشتہ سماعت میں ذکر تھا کہ انہوں نے شوکت صدیقی کے گھر وزٹ کیا، ان میں موجودہ ڈی جی آئی ایس جنرل فیض حمید شامل ہیں۔
جب یہ جواب پڑھ کر سنایا جا رہا تھا تو جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن نے سنجیدہ انداز میں ایک دوسرے سے سرگوشی اور مشاورت کی۔
واضح رہے کہ گذشتہ سماعت میں عدالت نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر خفیہ اداروں کے افسران شوکت صدیقی کے گھر آتے جاتے تھے تو ان کے بھی یقینی تعلقات ہوں گے اور ان نکات پر درخواست گزار سے جواب طلب کیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول دستاویزات میں شوکت صدیقی کے جواب میں بتایا گیا کہ برگیڈیئر عرفان رامے ان کے گھر آئے اور درخواست کی کہ آئی ایس آئی دفتر کے سامنےگرین بیلٹ خالی کروانے کا جو آرڈر دیا گیا ہے اس کا دوبارہ جائزہ لیں لیکن شوکت صدیقی کے انکار پر انہوں نے برہمی کا اظہار کیا۔ اس واقعے کے دو دن بعد جنرل فیض حمید جب ان کے گھر آئے تو عمرے کی مبارک باد دی اور برگیڈیئر عرفان رامے کے رویے پر معذرت کی اور کہا کہ وہ قانونی راستے کے مطابق اس معاملے کو حل کریں گے۔
اس کے علاوہ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نیب سے سزاؤں کے خلاف اپیلوں کے بابت بھی استفسار کیا تو شوکت صدیقی نے جواب دیا کہ ’جب آپ قانونی معاملے سے پوری طرح آگاہ ہیں تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘ اس پر جنرل فیض نے کہا کہ ’اگر یہ اپیلیں آپ کے پاس زیر سماعت ہوتیں تو آپ کیا فیصلہ کرتے؟‘ جس پر شوکت صدیقی نے جواب دیا کہ ’بطور جج جو حلف لیا ہے اس کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا۔‘ اس پر جنرل فیض حمید نے یکدم کہا: ’اس طرح تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔‘
یہ باتیں سننے کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے: ’آپ نے آئی ایس آئی کے سامنے تو مزاحمت دکھائی لیکن پھر بعد میں عوامی مقام پر جا کر بند کمرے میں ہوئی ساری باتیں بول دیں اور ادارے کے بارے میں تحقیر آمیز الفاظ کا چناؤ کیا۔ آپ کو اپنے اداروں کے تخفظ کے لیے بھی مزاحمت دکھانی چاہیے تھی۔‘
شوکت صدیقی خاموشی سے چہرے پر ہاتھ رکھے کارروائی سن رہے تھے، تاہم جب جسٹس عمر عطا بندیال نے سوالات اٹھائے تو ایک دو بار انہوں نے پہلو بھی بدلا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیئے کہ ’جب جنرل فیض آپ کے گھر آئے تو آپ کو جواب دینا چاہیے تھا کہ جنرل صاحب آپ غلط جگہ پر آ گئے ہیں، آپ نے عمرے کی مبارک باد دی، آپ کا شکریہ لیکن میں اور کوئی بات نہیں سنوں گا، لیکن آپ وہاں بیٹھ کر ان کی باتیں سنتے رہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معزز جج کے ان ریمارکس کے بعد شوکت صدیقی اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ وہ فوج کےساتھ کسی تعلق میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دو صاحبزادے وکیل ہیں لیکن ان کو وکالت کی اجازت نہیں جبکہ اسلام آباد سے لوگ اٹھائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ ’صدیقی صاحب ہمیں علم ہے کہ آپ ایک ایماندار آدمی ہیں۔‘
جنرل فیض حمید کے دوسرے وزٹ کے بارے میں شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ ’جنرل فیض حمید نے تین ہفتوں بعد جب دوبارہ وزٹ کیا تو کہتے ہیں کہ آرمی چیف نے انہیں سمن کیا ہے اور پوچھا ہے کہ جج صاحب کیا چاہتے ہیں؟ آپ سے ایک جج نہیں سنبھالا جا رہا، ہم تو پوری پارلیمنٹ کو ہینڈل کر لیتے ہیں۔‘
جسٹس اعجاز الااحسن نے اس موقع پر استفسار کیا: ’لیکن یہ سارے انکشافات کرنے کا مقصد کیا تھا؟‘
انہوں نے مزید کہا: ’آپ نے پبلک میں جا کر تقریر کی تو کیا حاصل کیا؟ اس کا مقصد عدلیہ پر اثر انداز ہونے والوں کو ڈرانا تھا یا کسی مخصوص حلقے کی حمایت حاصل کرنا تھی؟ کیا یہ ٹھیک نہیں ہوتا کہ اگر آپ کو تحفظات تھے تو اس کو فیصلے کاحصہ بنا دیتے؟‘
اس موقع پر شوکت صدیقی دوبارہ اٹھ کھڑے ہوئے اور جواب دیا کہ ’سارے ججز ریمارکس دیتے ہیں لیکن میرے ریمارکس پر شوکاز نوٹس جاری ہو جاتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کی بات سن کر کہا کہ ’ہمیشہ وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ ہم سب ادارے اور ملک تعمیری عمل سے گزر رہے ہیں، اس کی وجہ ملک کے ارد گرد جاری حالات بھی ہیں۔ ہمیں اپنے ادارے کا تحفظ کرنا ہے، ججز پر اعتماد بحال کروانا ہے۔‘
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ ’پس پردہ ملاقاتیں ہوتی ہیں لیکن وہ آپ کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہونی چاہییں۔ آپ کے فیصلے بولنے چاہییں، لکھے ہوئے الفاظ بھی مناسب ہونے چاہییں جبکہ بولتے ہوئے تو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔‘
دوران سماعت وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف انکوائری کرنے کا اختیار رکھتی ہے، جج کو فارغ نہیں کر سکتی جبکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے شوکاز نوٹس کا جواب دیا تھا۔‘
حامد خان نے ایک موقع پر کہا کہ ’بار عدلیہ کی حفاظت کے لیے کام کرتی ہے،‘ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’معذرت کے ساتھ بار کی اپنی ایک پالیسی ہے جس کے تحت وہ کام کرتا ہے، مانتے ہیں کہ بار ججز کی معاونت کے لیے ہمیشہ موجود ہے۔ بار کی تنقید کی وجہ سے جسٹس اقبال حمید الرحمان نے استعفیٰ دیا تھا۔ بار کئی بار جذباتی ہو جاتا ہے۔ آپ کسی اور بات سے ناخوش اور پریشان تھے اور آپ نے اپنے ادارے اور چیف جسٹس کی تضحیک کر دی۔‘
سماعت کو ایک گھنٹہ ہوجانے پر ججز سماعت سن کر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو شوکت صدیقی تیسری بار روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ’معزز عدالت نے مجھ سے عوامی مقام پر تقریر اور انکشافات کی وجہ پوچھی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنے ہی ادارے سے دکھی ہوں، میرے اپنے ہی ساتھیوں، جن میں ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے نام شامل ہیں، نے میری پیٹھ پیچھے چھرا گھونپا۔‘
ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں روک دیا اور کہا کہ ’آپ پہلے ہی ایک متنازع تقریر کر چکے ہیں، جس کا اب مقدمہ لگا ہوا ہے عدالت میں اب دوسری کوئی تقریر نہ کریں۔‘
اس کے ساتھ ہی عدالت نے مزید دلائل کے لیے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ 14 جون سے عدالت میں موسم گرما کی چھٹیاں شروع ہو رہی ہیں لیکن ہم کوشش کریں گے کہ یہ بینچ سماعت کے لیے میسر رہے۔
شوکت صدیقی دہائیاں دیتے رہ گئے کہ انہیں تھوڑا سن لیا جائے لیکن ججز سُنی ان سُنی کرکے کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
بعد از سماعت شوکت صدیقی وکلا اور صحافیوں کے ہمراہ عدالت کے باہر کھڑے تھے تو وکیل عمران شفیق نے تبصرہ کیا کہ ’انڈپینڈنٹ اردو نے گذشتہ سماعت پر شوکت صدیقی کا تھمز اَپ دکھایا تھا لیکن اس مرتبہ تو معاملہ تھمز اَپ سے اوپر چلا گیا ہے،‘ جس پر شوکت صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب دیا: ’اس مرتبہ انہوں نے مختلف رخ دکھایا ہے، آپ ہر سماعت پر شوکت صدیقی کا مختلف رخ دیکھیں گے۔‘