سننے میں آیا ہے کہ وسیم اکرم کی نایاب تصویر 24 جون کو انٹرنیٹ پرنیلام کی جائے گی۔ اس تصویر کی قیمت کروڑوں میں ہو سکتی ہے۔ انٹرنیٹ پر کچھ ایسی چیزیں بھی ہو رہی ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلومات ہیں جس میں سرفہرست ہے این ایف ٹی۔ وسیم اکرم کی یہ تصویر ایک این ایف ٹی ہے۔
انٹرنیٹ پر ایک مخفف ہے ان ایف ٹی یعنی نان فنجیبل ٹوکنز۔ یہ مخفف پاکستان کی سرحدوں کو عبور کرنے والا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کے اس بلاگ میں ہم آپ کو سمجھائیں گے کہ این ایف ٹی نامی چیز کیا ہے۔
این ایف ٹی ایک ڈیجیٹل اثاثہ ہے جو فن، موسیقی اور کھیل میں ہونے والی واقعات، اشیا اور ویڈیوز جیسی حقیقی دنیا کی کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ ’بلاک چین‘ کے ساتھ آپس میں منسلک ہوتے ہیں جہاں پر اس کو بیچا یا خریدا جا سکتا ہے۔
این ایف ٹی کے ساتھ منسوب کہانی صرف ایک ڈیجیٹل آرٹ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی نفسیات پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ان چیزوں کی قیمت دیتا ہے۔
این ایف ٹی کو انگریزی میں ’نان فنجیبل ٹوکنز‘ کہا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز، فن، ویڈیو، تصویر یا پھر ایسی موسیقی جو دوبارہ تخلیق نہ ہو سکے اور انوکھی ہو۔
لیکن یہ ساری چیزیں ڈیجیٹل شکل میں ہونی چاہییں۔ بہت آسان تھا نا اس کو سمجھنا؟ میرا نہیں خیال، چلیں آگے چل کر تفصیل سے بتاتے ہیں۔
میں اپنی مثال سے شروع کرتا ہوں۔ آپ کو سمجھانے کے لیے میرے پاس ایک کیمرہ ہے جو میں نے چند سال قبل خریدا تھا۔
اس کا ماڈل ہے کینن 650 لیکن جب میں اسے خرید رہا تھا تو اس کی قیمت 60 ہزار روپے تھی۔ اس کمپنی نے اس ماڈل کے کیمرے ہزاروں کی تعداد میں بنائے ہوں گے اور اسے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔
اب ہم اس کیمرے کو انوکھا بناتے ہیں۔ سب سے پہلے جب میں نے یہ کیمرہ خریدا تھا تو اس سے میں نے ہزاروں تصاویر بنائیں تھیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کونہ کونہ گھوما تھا اور وہاں پر جا کر میں نے اس کیمرے سے تصاویر بنائی تھیں۔
اس کیمرے سے میرا ذاتی لگاؤ ہے اور نفسیاتی وابستگی ہے۔ یہ کیمرہ مجھے عزیز ہے اور میں اس سے بے حد محبت کرتا ہوں۔
خدا کرے میں دنیا کا سب سے بہترین فوٹوگرافر بن جاؤں پھر اگر میں اسی کیمرے کو نیلام کروں گا تو انسانی نفسیات کے مطابق یہ ایک بہت ہی قیمتی چیز ہوگی۔
آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ ایک ’نان فنجیبل‘ چیز ’فنجیبل‘ کسے بنتی ہے۔
ہماری معیشت میں دو طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے فنجیبل اور دوسری نان فنجیبل۔ جو چیز زیادہ مقدار میں بنائی جاتی ہے اس کی قیمت وہی رہتی جسے فکس پرائس یا اٹل قیمت کہا جاتا ہے۔
لیکن اگر ایسی سادہ چیز کو کسی بڑی شخصیت کے ساتھ جوڑا جائے تو اس کی قیمت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
یہ تو ہوا این اور ایف اب ہم ٹی پر آتے ہیں جس کو ٹوکن کہتے ہیں۔ یہ ایک انٹرنیٹ سے منسلک لفظ ہے جو بلاک چین کے اصول پر کام کرتا ہے۔
آسان الفاظ میں اور مثال کے ساتھ ایک بار پھرآپ کو بلاک چین کے بارے میں سمجھاتے ہیں۔
فرض کریں ایک دن میں پشاور میں ہوں اور مجھے بہت زیادہ بھوک لگی ہے۔ اچانک مجھےپیزا ہٹ نظر آتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ چلو آجپیزا کھاتے ہیں۔
پیزا ہٹ پر جاکر میں لائن میں کھڑا ہوتا ہوں اور اپنا آرڈر دیتا ہوں۔ اپنی گھڑی کو 30 منٹ تک دیکھنے کے بعد ایک آواز آتی ہے اور مجھے پتہ چلتا ہے کہ میرا نمبر آگیا ہے۔
پیسے دینے کے لیے میں اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتا ہوں۔ میرے بینک یعنی نیشنل بینک آف پاکستان کو ایک پیغام موصول ہوتا ہے ’سہیل پیزا ہٹ پر سات سو روپے خرچ کرنا چاہتا ہے۔‘
بینک میرے اکاونٹ میں رقم کی موجودگی کا اطمینان کرے گا اور یہ ٹرانزایکشن پھرپیزا ہٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے گی چاہے ان کا اکاؤنٹ کسی اور بینک میں ہی کیوں نہ ہو۔
یعنی بینک ہمارے پیسوں کی ہر منتقلی کا حساب رکھتا ہے۔ بینک ’انٹر میڈیٹ‘ کا کردار ادا کرتا ہے اور اس سروس کی مد میں بینک اپنی فیس وصول کرتا ہے۔
جب یہ رقم پیزا ہٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہے تو وہاں پر بینک کے ساتھ ایک سٹیٹمنٹ آجاتا ہے کہ ہاں اتنے پیسے اس اکاؤنٹ میں منتقل ہو گئے ہیں جس کا حساب موجود ہے۔
بینک کا یہ کردار صدیوں پرانا ہے اور یہ اسی طریقے سے چلتا آ رہا ہے۔
اب جب دنیا ڈیجیٹلائز ہوگئی ہے تو انٹرنیٹ کے دور میں بینکاری کے نظام نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔
دراصل بلاک چین بینک کا ہی کردار ادا کرتا ہے لیکن بجاۓ اس سارے سودے کے دوران رقم کی منتقلی کو خفیہ رکھنے کے بجائے سارے سودے کو آن لائن شائع کیا جاتا ہے۔
جیسے میرے بینک اورپیزا ہٹ کے درمیان رقم کی منتقلی کے بارے میں صرف مجھے، میرے بینک،پیزا ہٹ اور اس کے بینک کو معلوم تھا اور کسی کو نہیں معلوم تھا۔ لیکن بلاک چین میں ایسا نہیں ہوتا۔
آئیے آپ کو بینک کی مثال آن لائن ٹرانزایکشن کی صورت میں دیتا ہوں۔ میں اپنے ایک دوست سے سافٹ ویئر خریدتا ہوں جس کی قیمت چھ کرپٹو کوائنز ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب یہ ریکارڈ فرض کریں کہ آن لائن ’ایتھریم‘ پر چلا جائے گا۔ ایتھریم کرپٹو کوائنز کی ایک مارکیٹ ہے۔ اس ویب سائٹ کے ساتھ دنیا بھر کے ہزاروں کمپیوٹرز منسلک ہیں جنہیں کرپٹو مائنز کہا جاتا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے وقار ذکا ان ہی کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔
اب ان کمپیوٹرز کا کام دراصل یہ ہوتا ہے کہ میرے اور میرے دوست کے بیچ ہونے والی ٹرانزایکشن کو کمپیوٹر کیلکولیشن سے ویری فائی کرے۔
اس کے بعد کمپیوٹرز میری کرپٹو آئی ڈی میں میری ٹرانزایکشن کا کھاتہ جو عام دیکھا جا سکتا ہے اس کا پتہ لگائے۔
اگر میرے پاس کوائنز کی مطلوبہ تعداد موجود ہے تو اس ٹرانزایکشن کی میری طرف تصدیق ہو جائے گی اور یہ کوائنز میرے دوست کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجائیں گے۔
اس طرح اربوں ڈالرز کی ٹرانزایکشنز اور سودے بغیر کسی بینک نظام کے ہوتے ہیں۔
اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ وسیم اکرم کی تصویر کے ساتھ یا پھر ٹویٹر کے سی ای او جیک ڈورسی کے ایک سادہ سے ٹویٹ کا جو 29 لاکھ 15 ہزار ڈالر (پینتالیس کروڑ تریسٹھ لاکھ روپے) سے زیادہ میں فروخت ہوا کیا تعلق ہے؟
اس تعلق کو سمجھنے کے لیے ایک اور مثال حاضر ہے۔ دبئی میں ایک بزنس مین ہیں جن کے پاس اربوں ڈالرز ہیں۔ ان کی ساری ضروریات پوری ہیں اور وہ اپنے شوق کے لیے کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔
ایسی انوکھی چیز خریدنا چاہتے ہیں جو دنیا میں کسی کے پاس نہ ہو۔ اس کے لئے وہ منہ مانگی قیمت دینے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بزنس مین آن لائن اوپن سی ڈیجیٹل آرٹ مارکیٹ میں جاتے ہیں اور وہاں پر ان کو ایک ٹویٹ نظر آتا ہے۔ اس ٹویٹ کی قیمت 10 ارب ڈالرز ہے۔
وہ بزنس مین 10 ارب ڈالرز دے کر ٹویٹ خریدیں گے۔ اب یہ بزنس مین اس ٹویٹ کے مالک ہو گئے ہیں۔ عجیب بات ہے 10 ارب ڈالرز میں ایک سادہ سا ٹویٹ؟ تو پریشان نہیں ہوں۔۔۔۔
این ایف ٹی کا یہ رواج کھیلوں کے انوکھے لمحات کی ویڈیوز اور تصاویر میں بہت زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔ انوکھی چیزوں کو خریدنا اور اس کو فروخت کرنا یہ روایت دنیا میں صدیوں پرانی ہے۔
لیکن انٹرنیٹ کی وسعت سے اب یہ چیزیں ڈیجیٹل ہونے لگی ہیں۔ اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے بس ہمیں وقت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
ایک قابل ذکر بات رہ گئی وہ یہ کہ ایتھریم جن کمپیوٹرز سے چلتا ہے وہ بہت زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔ 33 ٹیرا واٹ، جو میگاواٹ سے بہت زیادہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنی تیزی سے ہماری دنیا ڈیجیٹلائز ہو رہی ہے اتنی ہی تیزی سے ہمارے ماحول پر اس کا اثر ہورہا ہے جس کا ہم کو ہی کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔