مئی 2010 کی بات ہے جب امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک شہری لیزلو ہینیز نے ایک آن لائن اشتہار کے ذریعے 10 ہزار کرپٹو کرنسی’بٹ کوائن‘ کے عوض دو پیزوں کی درخواست کی جو ایک پیزا کمپنی نے قبول کر لی۔
آج جب بٹ کوائنز کی قدر لاکھوں تک پہنچ گئی ہے تو لیزلو کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کو اکثر مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس موضوع میں دلچسپی لینے والے لیزلو کی سادگی کا مذاق اڑاتے ہوئے کرپٹو کرنسی کی موجودہ اہمیت کا تذکرہ کرتے ہیں۔
اس زمانے میں ایک کرپٹو کرنسی کی قیمت ایک سینٹ سے بھی کئی گنا کم تھی۔ تاہم فی الوقت بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک بٹ کوائن کی قیمت 50 ہزار ڈالر سے زائد ہے، یعنی لیزلو نے 40 ڈالر کے دو پیزوں کی ادائیگی قریباً 20 کروڑ ڈالر میں کی۔
دس سال بعد پوری دنیا میں کرپٹو کرنسی کی تقریباً سات ہزار کے قریب اقسام گردش میں ہیں، جس کے ذریعے تجارت سے لے کر آن لائن خرید وفروخت اور دوسری سروسز حاصل کی جاتی ہیں۔ اور تو اور کرپٹو کارڈ بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں۔
اس بے ضابطہ اور غیر منظم آن لائن کرنسی سے زیادہ تر منافع کمانے کا کام لیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آغاز سے لے کر تاحال یہ کرنسی مستحکم نہیں رہی ہے۔
کرپٹو کرنسی کیا ہے؟
دنیا بھر میں اس کرنسی کی مقبولیت میں اضافہ ہونے کے بعد آج کل پاکستان میں بھی اس کا بہت چرچا ہے اور اکثر سوشل میڈیا اکاؤنٹس خاص کر واٹس ایپ گروپس میں لوگ کرپٹو کرنسی کے پیغامات آگے بھیجتے رہتے ہیں۔اس موضوع سے لاعلم لوگ یقیناً جانناچاہیں گے کہ یہ کیا چیز ہے اور اس سے کیسے محفوظ طریقے سے منافع کمایا جاتا ہے۔
کرپٹو کرنسی دراصل ایک آن لائن یعنی ڈیجیٹل کرنسی کا نام ہے جس کے ذریعے آن لائن خریدوفروخت کی جاتی ہے۔ دنیا کی مختلف کمپنیوں نے مارکیٹ میں اس کو مختلف ناموں سے متعارف کیا ہے، جس کو عام فہم زبان میں ٹوکن بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو بانڈ سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے کیونکہ اس کرنسی کو خریدنے کے لیے اصل رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
کرپٹو کرنسی کو ’بلاک چین ‘نامی ٹیکنالوجی کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ بلاک چین حکومتی سرپرستی کے بغیر انفرادی طور پر مختلف کمپیوٹرز کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو ان پیسوں کا انتظام اور اس سے خریدو فروخت کا ریکارڈ اپنے پاس رکھتا ہے۔
کرپٹو کرنسی کی اقسام اور حجم
امریکی ریاست نیویارک میں مقیم پاکستانی نژاد حیدر چنگیز نے جو کہ پچھلے کئی سال سے امریکی کاروباری مرکز وال سٹریٹ میں ان لائن کاروبار کرتے آ رہے ہیں اور کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کر چکے ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت کرپٹو کرنسی کی پوری دنیا میں سات ہزار سے زائد اقسام ہیں جن کا کُل حجم کھربوں ڈالر ہے۔ ان میں زیادہ مشہور بٹ کوائن کرپٹو کرنسی ہے جس کا حجم ایک کھرب ڈالر سے زائد ہے۔
حیدر چنگیز نے بتایا: ’کرپٹو کرنسی جیسے کہ بٹ کوائن اس وقت عوام کی دلچسپی کا مرکز اس لیے ہے کیونکہ لوگ اس کو مستقبل کی کرنسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کی حمایت اور استعمال کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر وفاقی بینکوں کی اجارہ داری نہیں ہوتی کیونکہ زیادہ تر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ بینک افراط زر کے نام پر پیسوں کی قدر میں کمی بیشی کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ کرپٹو کرنسی میں یہ سب نہیں ہوتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حیدر چنگیز کا کہنا ہے کہ وہ خود کرپٹو کرنسی میں محتاط سرمایہ کاری کرتے ہیں، کیونکہ اس کاروبار میں پیسہ اندازوں کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے، اور اس کا اصل سرمایہ کاری سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’کرپٹو کرنسی خریدنے اور اس کو پاس رکھنے سے اس پر منافع نہیں کمایا جا سکتا، ماسوائے اس کے کہ اس کی قیمت مارکیٹ میں بڑھے اور اس کو بیچ دیا جائے۔‘
کرپٹو کرنسی کی معلومات اور اس میں کی گئی تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے والی ویب سائٹ ’کوائن مارکیٹ کیپ‘ کے مطابق اس وقت (نو مارچ) حجم کے لحاظ سے دنیا کی دس بڑی کرپٹو کرنسیوں میں بٹ کوائن سب سے پہلے نمبر پر، ایتھرئیم دوسرے نمبر پر جس کا کُل حجم 221ارب ڈالر ہے، تیسرے نمبر پربائنانس کوائن ہے جس کا حجم 37 ارب ڈالر ، چوتھے نمبر پر ٹیدر ہے جس کا کُل حجم 36.8ارب اور پانچویں پر کارڈانو سے جس کا کل حجم 36.3 ڈالر ہے
حیدر چنگیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دنیا میں ٹاپ ٹین کرپٹو کرنسیوں میں سے کوئی بھی مفت میں دستیاب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ’ کرپٹو کرنسیوں کی جن اقسام کی سوشل میڈیا پر تشہیر ہو رہی ہے اور جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مفت میں مل رہی ہیں، دراصل یہ وہ کرنسی ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے, لہذا خریدنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔‘
اس وقت مختلف بروکریج کمپنیاں کرپٹو کرنسی کے خریدوفروخت کی سہولیات مہیا کر رہی ہیں جن میں’کوائن بیس‘ 30 قسم کی کرپٹو کرنسیوں، ای ٹورو 15 اقسام، رابن ہوڈ سات اقسام، سوفائی ایکیٹو انویسٹنگ تین قسم اور ٹریڈ سٹیشن پانچ قسم کے کرپٹو کرنسیوں کی خریدوفروخت میں مدد دے رہی ہے۔ ان کمپنیوں میں رابن ہوڈ زیادہ شہرت کی حامل ہے کیونکہ وہ کسی قسم کا کمیشن وصول نہیں کرتی۔
خریدوفروخت کے لیے اکاؤنٹ بنانے کا طریقہ کار
کرپٹو کرنسی میں تجارت کرنےوالے حیدر چنگیز کے مطابق اکاؤنٹ کھولنے کے لیے سب سے پہلے اپنے موبائل کے ایپ سٹور سے آن لائن انویسٹمنٹ ایپلی کیشن جو کہ رابن ہوڈ، ای ٹورو، کوائن بیس یا کوئی اور ایپلی کیشن ہو سکتا ہے، کو ڈاؤن لوڈ کیا جاتا ہے، جس میں اپنا اصل نام، پتہ اور دیگر معلومات لکھنے کے بعد اپنا حقیقی بینک اکاؤنٹ اس کے ساتھ منسلک کرنا ہوتا ہے۔
’اس میں دھوکے بازی سے بچنے کے لیے جانی پہچانی کمپنیوں یا مالکان کے ساتھ ہی اکاؤنٹ کھولنا آپ کو کسی حد تک محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آپ جو کرنسی خرید رہے ہیں وہ پہلے سے مارکیٹ میں موجود ہے یا کہیں آپ ہی کے پیسوں کے بل بوتے پر کوئی کمپنی خود کو متعارف کر رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد اپنی من پسند کرپٹو کرنسی خریدنے کے لیے سرچ بار میں جا کر کرپٹو کرنسی خریدی جاتی ہے جو کہ خود ایپ کے اندر والٹ میں چلی جاتی ہیں۔
’تاہم بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، کرنسی خریدنے کے بعد آپ کو روزانہ مارکیٹ کا حال، کرنسی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے باخبر رہنا ہوتا ہے، اور قیمت بڑھنے یا گرنے کی صورت میں یہ فیصلہ اکاؤنٹ ہولڈر پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کرنسی کا کیا کرنا چاہتا ہے۔‘
پاکستان میں پائے کوائن کی مقبولیت
پاکستان میں زیادہ تر’ پائے کوائن‘ کے حوالے سے تشہیر عام ہے تاہم کوائن مارکیٹ کیپ کی فہرست میں اس نام کی کرنسی کا ذکر ٹاپ ٹین میں تو دور اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عذیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ کافی عرصے سے پائے کوائن کا نام سنتے آ رہے تھے، لہذا ان کا تجسس بڑھ گیا اور اس میں اکاؤنٹ بنایا۔
انہوں نے کہا: ’یہ ایک فری اکاؤنٹ ہے تو مجھے کوئی پیسے خرچ نہیں کرنے پڑے۔ دوستوں کا کہنا ہے کہ اس اکاؤنٹ کو روزانہ کھولنا پڑتا ہے۔ اور ایک بٹن دبایا جاتا ہے جس میں فی گھنٹہ رفتار سے کوائن جمع ہوتے ہیں۔‘
دوسری جانب ، آئی ٹی کے ماہر اور اس موضوع پر گہر ی نظر رکھنے والے پاکستانی پی ایچ ڈی سکالر کاشف خان کا کہنا ہے، کہ پائے کوائن کو چلانے والے’پائے نیٹ ورک‘ اور ان کی جانب سے دستیاب ایپلی کیشن کا صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے مطابق مارکیٹ میں کرپٹو کرنسی کی دھوم کی وجہ سے لوگ پائے کوائن کی ایپ کو موبائل میں صرف اس وجہ سے رکھتے ہیں کہ کسی نہ کسی روز ان کے اس فرضی پیسے کی قیمت بٹ کوائن کی طرح بڑھ جائے گی۔
دنیا کے زیادہ تر مالی اداروں اور مرکزی بینکوں نے کرپٹو کرنسیوں کی سرپرستی سے انکار کرتے ہوئے اپنے باشندوں کو وقتاً فوقتاً تنبیہ کی ہے کہ اس کرنسی میں کاروبار اور لین دین کرتے وقت ان کو پیش آنے والے مالی نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔
اسی طرح 2018 میں پاکستان کے مرکزی بینک سٹیٹ بینک نے بھی اسی طرح کی تنیبیہ کی تھی کہ وہ کرپٹو کرنسی کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن نقصان کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ تاہم انہوں نے کبھی اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا۔
پاکستان میں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن نے گذشتہ برس نومبر میں ڈیجیٹل کرنسی کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اس کی نگرانی کا نظام استوار کرنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ نیا نظام موجودہ ریگولیٹری فریم ورک میں نہیں آتا۔
ایس ای سی پی کا مزید کہنا تھا کہ اس کرنسی کے اثرات کے بارے میں وہ ایک تحقیق کرنا چاہتی ہے۔ ادارے نے اس بارے میں عوام سے تجاویز بھی طلب کی تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ابھی اس کی نگرانی اور محفوظ بنانے کا کوئی سرکاری نظام موجود نہیں ہے۔