اسلام آباد جیسے بڑے شہر کے ایک بڑے ہسپتال میں ایک ایسا واقعہ ہوا جب عرب کے زمانۂ جاہلیت کے واقعات یاد آ گئے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک ماں بچہ جنم دینے کے لیے ہسپتال کے گائنی وارڈ میں داخل تھی۔ پیدا ہونے والے بچے کا باپ اور دادی بے چینی سے یہ خوشخبری سننے کے لیے بے تاب تھے کہ ان کے گھر ایک نہیں دو جڑواں بیٹوں کی آمد ہو رہی ہے کیونکہ ڈاکٹر نے ان کو الٹرا ساؤنڈ دیکھ کر بتایا تھا کہ بیٹے پیدا ہوں گے۔
مگر ماں بیٹے کے خوشی اس وقت غارت ہو گئی جب ایک نرس نے آ کر انہیں بتایا کہ آپ کی بہو کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئی ہیں۔ یہ سنتے ہی ماں غصے سے قابو سے باہر ہو گئی اور اس نے وہیں چیخنا چلانا شروع کر دیا۔
یہی نہیں، اس نے جا کر ڈاکٹر کا گریبان پکڑ لیتی ہے کہ یہ غضب کیسے ہو گیا، تم نے تو بیٹوں کا کہا تھا تو یہ بیٹیاں کیسے پیدا ہو گئیں؟
ڈاکٹر نے سمجھانے کی کوشش کی کہ الٹرا ساؤنڈ میں مجھے بیٹے ہی لگے تھے اس لیے مجھے جو لگا ویسا میں نے آپ کو بتادیا، بعض اوقات بچے کا درست اندازہ نہیں ہو پاتا کہ بیٹا ہے یا بیٹی۔
لیکن خاتون نے ڈاکٹر پر مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دے کر گالم گلوچ پر اتر آئیں۔ ان کو سکیورٹی بلوا کر بڑی مشکل سے وہاں سے باہر بھجوایا گیا۔
اپنی نو مولود پوتیوں کو دیکھنا تو درکنار وہ وہاں سے اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر باہر گئیں کہ اپنی اس منحوس بیوی کو اس کے میکے بھجوا دو اور اسے کہنا وہیں رہے اور ہمارے گھر میں آنے کی جرات نہ کرے۔
بیٹا بھی اپنی نومولود بیٹیوں کو دیکھنے کی بجائے ماں ہی کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش سے پہلے اور اب تک علاج کا سارا خرچہ لڑکی کے والدین ہی نے اٹھایا تھا کیونکہ نومولود بچیوں کا باپ خیر سے کوئی بھی کام کاج نہیں کرتا۔
لڑکی والوں نے اس لیے اس سے شادی کروا دی تھی کہ پہلی شادی میں اس کو طلاق ہوئی ہوتی تھی اور کوئی اور رشتہ دستیاب نہیں تھا۔ بہو کو مطلقہ ہونے کے طعنے بھی برابر سننے کو ملتے تھے۔
اب اگر اس بد نصیب کو اپنے سسرال آنے کی اجازت مل گئی تو اس کی ساس پتہ نہیں اس کےساتھ کیسا رویہ روا رکھے گی، کیونکہ ساس صاحبہ نے اس سے پہلے اپنی دوسری بہو سے بھی بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے بہت ناروا سلوک کیا تھا۔
بیٹے اس کے دونوں اس کی مٹھی میں ہیں۔ اس لیے ماں کے آگے منہ کھولنے کی جسارت کبھی نہیں کر سکتے۔ مجھ تک یہ واقعہ ایک دوست کی وساطت سے پہنچا۔ اس نے مجھے ان نومولود بچیوں کی تصویر بھی بھیجی جن کو دیکھ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اتنی پیاری پریوں سے آخر کیسے کسی کو نفرت ہو سکتی ہے وہ بھی ایک عورت کو؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور میرے ذہن میں یہ سوال بھی ابھر کر سامنے آیا کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ آج کل کے دور میں بھی عورت ہی عورت کی اتنی دشمن ہو جاتی ہے کہ اسے اپنے جیسے مخلوق کا وجود بھی برداشت نہیں ہو پاتا اور اپنی مرضی سے جس بہو کو بیٹی کی طرح بیاہ کر اپنے گھر میں لاتی ہے، اسی کے درپے آخر کیوں ہو جاتی ہے؟
یہ سوال جب گائنا کالوجسٹ اور معروف لکھاری ڈاکٹر طاہرہ کاظمی، جو خواتین کے مسائل پر کافی لکھتی رہتی ہیں، سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا کہ ’ہمارے سماج میں جب ایک عورت اپنے سسرال جاتی ہے اور پدر شاہی سوچ کی وجہ سے جب اسے ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر وہ موقع ملنے پر اپنی بہو سے بھی ویسا ہی سلوک روا رکھتی ہے جیسا اس نے سہا ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر طاہرہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ ایسا برتاؤ جان بوجھ کر نہیں کر رہی ہوتی بلکہ پدر شاہی سوچ کی چھاپ اس پر اس قدر ہو جاتی ہے کہ وہ لا شعوری طور پر دوسری عورت کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھنا شروع کر دیتی ہے۔‘
ان سے بات کرتے ہوئے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہمارے سماج میں پدر سری سوچ کے بدلنے کے حوالے سے پر امید تو ہیں لیکن انہیں ابھی لگتا ہے کہ اس سلسلے میں ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، کیونکہ عورتوں کے مسائل اور حقوق تو بعد میں آتے ہیں ابھی تو اس پدر سری سماج کے مردوں اور عورتوں کو عورت کے وجود سے محبت کرنا سکھانا ہے۔
اگر ایسا ہو جائے تبھی ممکن ہو گا کہ اسلام آباد والے واقعے کی طرح کوئی بھی عورت یا مرد بیٹی کی پیدائش پر ماتم نہ کر سکے بلکہ جب ان کو یہ کہا جائے کہ ’مبارک ہو، بیٹی ہوئی ہے‘ تو ان کا سر شرم سے نہ جھکے بلکہ ویسے سے فخر سے بلند ہو جائے جیسے ایک بیٹے کی پیدائش پر ہوتا ہے۔ کیونکہ ابھی بھی بہت سے گھروں میں بیٹے کی خواہش میں کئی بیٹیاں پیدا کر دی جاتی ہیں۔ یا اس کا ملبہ ماں پر ڈال کر باپ کی دوسری شادی کر دی جاتی ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں سے منعقد کیے جانے والے عورت مارچ میں بھی ’مبارک ہو، بیٹی ہوئی ہے!‘ کے پوسٹر دیکھ کر دلی اطمینان ہوا کہ جو جملہ ہمارے ہاں بیٹوں کی پیدائش پر بولا جاتا تھا اب بیٹی کی پیدائش پر بھی اس کی بازگشت سنی جا سکتی ہے، چاہے ایک مارچ ہی میں سہی۔
لیکن اس سب کے باوجود بھی حوا کی بیٹی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے کہ جس کے بارے میں جان کر پھر سے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم کہاں بھٹک رہے ہیں۔