پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشی محمد شفیق پیدائشی طور پر ذہنی معذور تھے، جو اپنے اردگرد موجود لوگوں کی جانب سے تنگ کیے جانے پر تقریباً 25 سال قبل اپنے علاقے سے فرار ہوئے اور دو تین ماہ در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد انہیں پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک رہائشی نے پناہ دی اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا۔
مظفرآباد کی تحصیل نصیر آباد کے گاؤں منڈل مدار سے تعلق رکھنے والے شفیق ذہنی معذور ہونے کے ساتھ ساتھ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے انہیں اپنے بارے میں کچھ خاص معلوم نہیں تھا۔ 1996 میں اپنے علاقے سے نکلنے کے بعد یونہی بھٹکتے بھٹکتے وہ ضلع چکوال کے علاقہ چوا سیدن شاہ کے بازار میں پہنچے اور سڑک پر ہی رہنے لگے۔
اس علاقے کے مقامی تاجر عبدالستار کو ان کی حالت پر رحم آ گیا اور انہوں نے اس مجذوب کو اپنا بیٹا بنانے کا فیصلہ کرلیا اور پھر عمر کے اگلے 25 سال محمد شفیق نے انہی کے گھر میں گزار دیے۔ شفیق عبدالستار کے روز مرہ کاموں میں ہاتھ بھی بٹانے لگے۔
اس سارے عرصے میں عبدالستار نے کئی دفعہ سوچا کہ اس نوجوان کے لواحقین کی تلاش کریں لیکن ان کے پاس کوئی اشارہ یا سرا موجود نہیں تھا، جس کی مدد سے ان کے اہل خانہ کا کچھ پتہ چلتا۔
شفیق کو نہ تو اپنا نام معلوم تھا اور نہ ہی اپنے شہر کا نام۔ گاؤں کا نام وہ اکثر لیتے رہتے تھے، جو ان کے بازو پر بھی لکھا تھا لیکن اس کی مزید کوئی تفصیلات معلوم نہیں تھیں۔
شفیق کے مرحوم والد میر حبیب اللہ نے 1993 میں مظفرآباد کے سائیں سخی سرکار دربار پر لگے میلے میں اپنے بیٹے کی پہچان اور حفاظت کے لیے اس کے بازو پر ’محمد شفیق منڈل مدار‘ کے الفاظ کنندہ کروا دیے تھے۔
شاید والد کو معلوم نہیں تھا کہ اس بچے کی قسمت اسے تحصیل نصیر آباد اور ضلع مظفرآباد سے اتنا دور لے جائے گی جہاں کوئی بھی ’منڈل مدار‘ سے آگاہ نہ ہوگا۔
چند سال قبل اسلام آباد میں مقیم چوا سیدن شاہ کے ایک سماجی کارکن خرم شہزاد نے محمد شفیق سے گپ شپ کرتے ہوئے ان کے بازو پر کنندہ الفاظ دیکھے اور پھر وہ ان کے لواحقین کی تلاش میں جت گئے۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت تلاش کیا لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان کے سرپرست عبدالستار بھی اس کوشش سے دلی طور پر خوش نہ تھے کیونکہ ان کے لیے محمد شفیق سے دور رہنا انتہائی کربناک لمحہ ہوتا۔
خرم شہزاد کی عبدالستار سے ملاقاتیں جاری رہیں اور وہ انہیں سمجھاتے رہے کہ ’اس بچے کے والدین بھی تڑپ رہے ہوں گے، لہذا ہمیں کم از کم انہیں ڈھونڈ کر ملوا دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے اس کے بعد وہ بھی اس بچے کے آپ کے پاس رہنے پر معترض نہ ہوں۔‘
حال ہی میں عبدالستار یہ بات مان گئے اور خرم شہزاد نے دوبارہ لواحقین کی تلاش کا سلسلہ شروع کیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ یہ علاقہ مظفرآباد کے نواح میں ہے۔ اس بات کی تصدیق کے لیے انہوں نے مظفرآباد کے رہائشی اپنے دوست جواد احمد خان (جو کہ ایک وفاقی ادارے میں افسر ہیں) سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
16 مئی 2021 کو خرم شہزاد نے اپنے دوست سے رابطہ کیا، جنہوں نے ترجیحی بنیادوں پر اس علاقے اور لواحقین کی تلاش شروع کر دی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مظفرآباد کے سماجی کارکنان کے علاوہ پولیس تھانہ چھتر کلاس کے ایس ایچ او راجا منصف سے بھی رابطہ کیا۔ راجا منصف تحصیل پٹیکہ میں بھی بطور ایس ایچ او فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے بھی اس اہم معاملے پر جانفشانی سے کام کیا اور چند ہی گھنٹوں میں نہ صرف شفیق کے گاؤں کا پتہ ڈھونڈ لیا بلکہ ان کے لواحقین سے رابطہ بھی کروا دیا۔
شفیق کے چھوٹے بھائی میر عبدالرشید کے لیے یہ خبر کسی معجزے سے کم نہ تھی۔ انہوں نے شفیق کے لاپتہ ہونے اور شناخت کی تصدیق کے لیے پولیس کو 1996 میں درج کروائی گئی ایف آئی آر کی کاپی، شفیق کی گمشدگی سے پہلے کی تصاویر اور ان کا شناختی کارڈ بطور ثبوت مہیا کیے۔ جب انہیں محض بازو پر کندہ نام پتے کے بارے میں بتایا تو انہیں یقین ہو گیا کہ ان کی اور ان کی والدہ کی دعائیں رنگ لے آئی ہیں۔ انہوں نے اگلے ہی دن چوا سیدن شاہ جانے کا فیصلہ کیا۔
اس سارے معاملے میں سماجی کارکن خرم شہزاد، جواد احمد خان اور راجا منصف دونوں خاندانوں سے مکمل رابطے میں رہے اور ان کے درمیان معلومات کا تبادلہ بھی کیا۔
18 مئی 2021 کو شفیق کے چھوٹے بھائی میر عبدالرشید اپنے بھانجے کے ہمراہ اسلام آباد میں مقیم سماجی کارکن خرم شہزاد کے پاس پہنچے، جو انہیں اپنے ہمراہ چوا سیدن شاہ چکوال میں عبدالستار کے گھر لے گئے۔ عبدالستار پہلے سے آگاہ تھے اور شفیق کے خاندان کے آنے کی خبر پورے چکوال میں پھیل چکی تھی۔
عبدالستار کے گھر اب جلسے کا منظر تھا۔ اہل علاقہ برسوں بعد ملنے والے بھائیوں کو دیکھنے کے لیے بیتاب تھے۔ رات گئے تک وہاں دعوتوں کا سلسلہ چلتا رہا اور اس کے بعد محمد شفیق کئی سال بعد اپنی والدہ کو ملنے مظفرآباد روانہ ہوگئے۔
19 مئی کی سہہ پہر شفیق اپنی والدہ کے سامنے موجود تھے۔ شفیق کے آنے کی خبر سن کر ان کی بہنیں اور پورا گاؤں خوش آمدید کہنے موجود تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی لیکن یہ آنسو خوشی کے تھے جو 25 سال بعد ایک بیٹے اور ماں کی ملاقات کی تھی۔