یہ وہ موضوع ہے جس پر ہم کئی سالوں سے لکھنا چاہ رہے تھے پر نہیں لکھ پا رہے تھے۔ ابھی چونکہ تازہ تازہ فادرز ڈے گزرا ہے تو موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس موضوع کو پکڑے بیٹھے ہیں۔ تو جناب، ابا جی سے بات کرنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ اماں سے بات کرتے ہوئے سوچنا بھی نہیں پڑتا۔ پر ابا جی؟ نہ رے نہ!
اماں سے جو چاہے جب چاہے، جیسے چاہے کہہ سکتے ہیں پر ابا جی کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوتا۔ کیوں؟ آخر وہ بھی تو وہی ہیں جو اماں ہیں۔ پھر ان کے ساتھ بات کرنا مشکل کیوں ہے؟
اماں کسی کام سے منع کریں تو ہم ان کے آگے شیر بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیوں نہ کریں، آخر کیا ہو جائے گا، آپ ہر وقت روک ٹوک ہی کیوں کرتی ہیں؟ دوسری طرف ابا جی بس نام ہی لے لیں ہم بقیہ بات خود ہی سمجھ جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے جیسے آپ کہیں یا نہ بھی کہیں، ہم سمجھ گئے۔
ہمارے ایک دوست بھی ہمارے جیسے ہیں۔ دوسروں کے سامنے شیر بنے پھرتے ہیں۔ ابا جی کا فون آتے ہی ان کے منہ سے سیٹی نما آوازیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جانے ان کے ابا جی دوسری طرف سے کیا بول رہے ہوتے ہیں، یہ ’جی ابا جی،‘ ’اوکے ابا جی،‘ ’ٹھیک ہے ابا جی‘ کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمارا حال بھی اپنے ابا سے بات کرتے ہوئے کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ’جی بابا،‘ ’اچھا بابا،‘ ’اوکے بابا۔‘
ہو سکتا ہے آپ میں سے بہت سوں کے والد ایسے نہ ہوں۔ ہمارے ایسے ہیں۔ اور ہم جیسے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ اس معاشرے میں موجود ہیں۔
فادرز ڈے پر سب اپنے والد کی شان میں دو دو گز لمبے قصیدے لکھ رہے تھے اور ہم اپنا فون ہاتھ میں پکڑے سوچ رہے تھے فون کریں یا نہ کریں، کریں تو کس وقت کریں، اور پھر کیا کہیں۔
’ہیپی فادرز ڈے؟‘
اتنا آسان تھوڑی ہوتا ہے کہنا۔ پورے 11 حروف ہیں، ملا دو تو پورے تین الفاظ بنتے ہیں۔ ان تین لفظوں کو بولنے سے پہلے کم از کم بھی ہمیں دو گلاس پانی چاہیے۔ اور اس کے بعد جو کہنا ہے وہ کیسے کہیں؟ دل میں تو ہے پر اسے زبان پر کیسے لائیں؟
کیوں بچوں کے دل میں ابا جی کا اتنا ڈر بٹھا دیا جاتا ہے؟ بھائی، ہمارے ابا ہیں۔ انہیں ابا رہنے دو۔ کم از کم اس دن کا سوچ لو۔ بچپن میں تو ہوم ورک نہ کرنے یا بات نہ سننے پر ابا جی کا ڈر دے کر کام چلوا لیتے تھے۔ اب بتائو، ہم کیا کریں؟کیسے کہہ دیں، ہیپی فادرز ڈے؟
کال مشکل لگ رہی تھی تو سوچا میسج کر دیتے ہیں۔ اپنی اور ابا جی کی دو چار تصاویر ڈھونڈیں اور انہیں وٹس ایپ کر دیں۔ ہیپی فادرز ڈے بھی لکھ دیا اور اس کے ساتھ تین سرخ رنگ کے دل بھی بنا دیے۔ دو گھنٹے بعد ابا جی کی طرف سے جواب موصول ہوا، ’تھینکس‘ اور ایک گلابی رنگ کا دل۔ اُف۔ شکریہ تو متوقع تھا پر دل؟ اللہ۔
آپ ہمارے ابا جی کو ہٹلر نہ سمجھیں۔ وہ بالکل نارمل دیسی ابو ہیں۔ اوپر سے سخت اندر سے نرم۔ ہم یہاں بیمار ہوتے ہیں وہ وہاں پریشان ہو جاتے ہیں۔ خود فون نہیں کریں گے پر اماں سے پوچھتے رہیں گے کہ ٹھیک ہے؟ وہ کہہ دیتی ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ابا جی بیمار ہوں تو ہم فون اماں کو کرتے ہیں۔ وہ ٹھیک ہیں؟ ہسپتال گئے تھے؟ ٹیسٹ کروائے؟ وہ آگے سے ہوں ہاں کر دیتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے اور ہمارے ابا جی کے درمیان اتنا بڑا کمیونیکیشن گیپ ہے اور اس گیپ کا ذمہ دار یہ معاشرہ اور اس کی روایتیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ ایک اچھے بھلے جیتے جاگتے انسان کو اس کے بچوں کے لیے ہٹلر بنا دیتا ہے۔ کیوں؟ ایک نرم گرم باپ نارمل کیوں نہیں لگتا؟ ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ آپ میں سے بہت سوں کے والد ہمارے والد سے مختلف ہوں گے پر بہت سوں کے ہمارے والد جیسے ہی ہوں گے۔
ہمارے ابا بالکل ایسے نہیں جن کے ساتھ آپ بے تکلفی کے ساتھ بیٹھ کر ’ہور سناؤ، ابا جی‘ کریں۔ ہمارے ابا جی تو ایسے ہیں کہ کبھی آمنا سامنا ہو جائے تو ہمارا سانس جہاں ہو وہیں رک جاتا ہے۔ حالانکہ وہ کہتے کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے زندگی کے ہر مقام پر ہمارا ساتھ دیا ہے۔ یہی دیکھ لیں۔ ہم ہر ہفتے جانے کیا اوٹ پٹانگ لکھتے ہیں۔ مجال ہے کبھی کہا ہو کہ ایسے نہ لکھا کرو، ویسے نہ لکھا کرو یا لکھا ہی نہ کرو۔
اس وقت بھی نہیں کہا جب ہمارے ایک قریبی عزیز ہمارے ہی ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہمارے والد کو ہمیں سیدھا کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ ابا جی نے ان کی بات پوری تسلی سے سنی، چائے پلائی اور عزت سے دروازے تک رخصت کیا۔ ہم ان کے جانے کے بعد کئی گھنٹے ڈرتے رہے کہ ابھی بلاوہ آئے گا اور ہماری کلاس لگے گی۔ پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ابا جی ایسے نارمل تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہم نے بھی ان کی دی گئی ڈھیل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ سب لکھا جو ہم لکھنا چاہتے تھے۔
حتیٰ کہ چھ سال پہلے جب ہم پہلی بار چین آ رہے تھے انہوں نے ایئر پورٹ پر ہمیں اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہا کہ ’بیٹا جی جیسا دیس ویسا بھیس۔ میری طرف سے تم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہاں کا ماحول دیکھنا۔ اس کے مطابق جو پہنا ہے پہننا، جو کرنا ہو کرنا۔‘
اس کے باوجود ان کا ڈر ایسا ہے کہ ہم میلوں دور بیٹھے اپنے فون پر کبھی ان کا نام جگمگاتا دیکھ لیں تو کانپ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ ہمارا حال احوال پوچھیں گے یا کلاس لگائیں گے۔ کلاس تو خیر اب کیا ہی لگنی بس کبھی دل میں سوچ آتی ہے کہ باپ کے وجود کو ڈر سے کیوں جوڑا گیا ہے؟
حالانکہ باپ کے دل میں اپنے بچوں کے لیے پیار، محبت اور شفقت کے جذبات ہی ہوتے ہیں۔ وہ بھی اپنے بچوں سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا مائیں پیار کرتی ہیں لیکن ان کے لیے اس پیار کا اظہار کرنا آسان نہیں ہوتا۔ہاں کبھی ڈانٹنا ہو تو پٹاخ سے ڈانٹ دیتے ہیں۔ وہاں اظہار کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ پر اوکے چلتا ہے۔ وہ اوپر اوپر سے جو بھی دکھائیں، ہم جانتے ہیں کہ ان کا دل ہمارے لیے ہی دھڑکتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہمارا دل بھی ان کی خاطر ہی دھڑکتا ہے۔
ہمارے درمیان جتنا بڑا کمیونیکیشن گیپ ہو، ہمارے دلوں کے درمیان کبھی گیپ نہیں آئے گا۔