ہم اپنے خاندان میں فادر ڈے نہیں مناتے ہیں۔
میں اپنے والد کو پیار کرتی ہوں۔ آپ بھی ایسا ہی کرتے اگر آپ ان سے ملتے۔ وہ سب سے پرجوش اور خوش اخلاق انسان ہیں اور لفظ ’سخاوت‘ ان کی وضاحت کے لیے بہت چھوٹا لفظ معلوم ہوتا ہے۔
ان کا دروازہ مستقل طور پر بےگھر یتیم بچوں اور آوارہ افراد کے لیے کھلا رہتا ہے اور جو اپنی ’گاڈ فادر‘ کی طرح بیٹی کی شادی کے دن مدد کی درخواست کو کبھی مسترد نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ والد کے دن کو پسند نہیں کرتے اور ہم اس بات کا احترام کرتے ہیں۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اس دن کو ’سرمایہ داری نظام نے منتخب‘ کیا ہے۔ میرے والد ٹھیک ٹھاک سوشلسٹ ہیں۔
جب انہیں کسی یونیورسٹی میں اپنی نظمیں پڑھنے کے لیے آسٹریلیا بلایا گیا تو میں نے، ان کی چیمپیئن سوشلسٹ بیٹی، ان کے ٹکٹ کو ’پریمیم اکانومی‘ میں اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں یہ منظور نہیں تھا۔
میں نے ان سے کہا ، ’اس سے آپ کی ٹانگوں کو مزید جگہ ملے گی اور کیبن کا عملہ آپ سے اچھا پیش آئے گا!‘
انہوں نے کہا: ’میری ٹانگیں دوسروں سے زیادہ مستحق کیوں ہیں؟ اور ہمیں اچھے سلوک کے لیے ادائیگی کیوں کرنی ہوگی؟‘
میں نے اپنے والد کے لیے ان کے شوق کے مطابق ماضی میں بہت سے تحائف خریدے۔ شطرنج کے دلکش سیٹ، فینسی فاؤنٹین پین، فینسی سنگل مالٹ کی بوتل جس پر اس کا نام کندہ تھا۔
لیکن پھر بھی انہیں غیر متوقع طور پر ان کے دروازے پر اپنے بچوں کے ساتھ پہنچنا اور دوپہر کے کھانے کا مطالبہ ٹانگوں کے لیے زیادہ جگہ یا کسی بھی دلکش چیز سے زیادہ پسند ہے۔
لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ محض ایک سرمایہ داری مخالف دل ہے جس کی وجہ سے وہ فادر ڈے کے موقعے پر اڑ جاتے ہیں۔ ان کے اپنے والد کی موت اس وقت ہوئی جب وہ چھ سال کے تھے اور جب وہ خود باپ بنے تو ان کے پاس حوالے کے طور پر کچھ زیادہ نہیں تھا۔
ہم میں سے بیشتر، جب والدین بنتے ہیں تو بہترین کی امید میں اکثر اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں لیکن والدین کو کھونا ایک بچے کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ چیز ہے اور ان کی دنیا کو ایک خوف ناک جگہ بنا سکتی ہے۔
یہ دہشت بلوغت کے موقعے پر ہر طرح کے تکلیف دہ طریقوں سے ظاہر ہوسکتی ہے۔ اُس وقت اور جس کلچر میں ہم رہتے تھے اس کے پیش نظر میرے والد کو کبھی غم کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا۔ ’رونا مت‘ کسی اداس بچے کو کہنے والی ایک بدترین بات ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میری ایک عزیز دوست نے جون میں اپنے شوہر کو کھو دیا۔ ان کی بیٹی میری بیٹی کی بہترین دوستوں میں سے ایک ہے۔ مجھے ان کی غم کی سونامی میں ایک تسلی بخش بات جو نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ وقت بدل گیا ہے۔
اس چھوٹی بچی کو اپنے سکول میں گریف کونسلنگ (مشاورت) اور ایک ایسی ماں دستیاب ہے جو اسے غم کے اظہار سے روک نہیں بلکہ اپنے ساتھ اپنی صحبت میں رکھے ہوئے ہے۔
بہت ہی مختلف حالات میں میری اپنی بیٹی کی پرورش والد کے بغیر کی جا رہی ہے۔ وہ صرف آٹھ سال کی ہے اور یہ اس کی اور میری بھی کہانی ہے لہٰذا میں اس بارے میں پبلکی بات کرنے سے ہچکچا رہی ہوں کہ ایسا کیوں ہے طور پر، عمدہ وائن کے ساتھ میں عموماً ( پیچھے نہیں رہ جاتی ہوں) لیکن میں کہوں گی کہ ان کا اس سے نہ ملنا اور میری کوششوں کے باوجود ایسا نہ کرنا یہ ان کی پسند ہے۔
وقت کے ساتھ والد کی غیرموجودگی کا احساس کم نہیں ہوتا۔ ہر کہانی جو میری بیٹی پڑھتی ہے، ہر ٹی وی شو یا فلم میں اس کے لیے ایک یاد دہانی ہوتی ہے کہ ایک ایسی چیز ہے جو دنیا کے پاس ہے لیکن اس کے پاس نہیں۔
یہاں ’والد' کی ایک پوری کائنات موجود ہے جس میں وہ نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کے چاروں اطراف خاندان اور دوستوں کی ایک فوج موجود ہے جو اس کی پوری طرح سے عقیدت مند ہے، لیکن پھر بھی فادر ڈے ایک ایسا واقعہ ہے جسے لطف اٹھانے کی بجائے گزارا جاتا ہے۔
یہ بالغ افراد نہ کہ بچے ہیں جو فادر ڈے کے موقع ےپر احساس نہی کرتے ہیں۔ اس کی پہلی نرسری میں وہ فادر ڈے کارڈ بنا رہے تھے۔
مجھے فون کرنے کی بجائے اور یہ پوچھنے کے کہ شاید کوئی ایسا شخص ہو جس کے لیے وہ کارڈ بنا سکتی ہے، تو انہوں نے اسے آرٹ ٹیبل سے دور رکھنے اور خود ہی ایک مختلف سرگرمی کرنے پر مجبور کر دیا۔
میں نے انہیں خوب سنائیں، انہوں نے مجھ سے معافی مانگی لیکن یقینا کبھی بھی بیٹی کو واپس وہاں نہیں لے گئی اور آج تک جب بھی میں اس نرسری کے پاس سے گزرتی ہوں مجھے شدید غصہ آتا ہے۔
اس کی باپ کی غیرموجودگی دوسرے بچوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ میری بیٹی کو یہ بیان کرنے میں کوئی کوفت نہیں ہوتی کہ ’میرے والد نہیں ہیں۔‘ اس کی ایک نئی دوست میری بیٹی کی کہانی کی تصدیق کے لیے مجھے سے ملنے آئی۔
اس نے پوچھا، ’ویوی کا کہنا ہے کہ اس کے والد نہیں ہیں۔‘ میں نے وضاحت کی: ’ہاں یہ سچ ہے۔ اس کے پاس صرف ایک ممی ہی ہے۔‘ یہ وضاحت چند سوالات اور کچھ آسان جوابات کے بعد اس نے قبول کر لی کیونکہ بچے سمجھنے میں شاندار ہیں اور ہر ایک کو باکس میں بند دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بچپن میں میری بیٹی نے اپنے بڑے بھائی کے والد کو ’ڈیڈی‘ کہنا شروع کیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس کا نام یہی ہے۔ میری بیٹی کا میرے سابق شوہر کو ’والد‘ کہنا واقعی مثالی بات نہیں تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے۔
وہ صرف ایک بچی تھی۔ میرے بیٹے نے جو اس وقت چھ یا سات سال کا تھا اسے حل کر لیا۔ اس نے اپنے والد کو خصوصی طور پر ایک پیار بھرے نام سے پکارنا شروع کیا۔
اب وہی عرفیت ہے جسے وہ دونوں اسے پکارتے ہیں اور وہ یہ یقینی بناتے ہیں کہ میری بیٹی کو معلوم رہے کہ ان کا گھر جتنا اس کے بھائی کا ہے اس کا بھی ہے۔
اتنی چھوٹی عمر میں میرے لڑکے نے اپنے والد کے لیے ایک ایسا نام ڈھونڈ لیا تھا جو اس کی چھوٹی بہن شیئر کرسکتی ہے۔
یہ بات میرے دل کو کسی بھی پیچیدہ کارڈ سے جس پر ایک آدمی کی گولف کھیلتے ہوئے تصویر ہوتی ہے زیادہ پگھلا دیتی ہے۔
© The Independent